بسم اللہ الرحمن الرحیم

جموں و کشمیر

یوم استحصال کشمیر، وادی میں آج یوم سیاہ منایا جائیگا

سرینگر میں لال چوک تک مارچ روکنے کے لیے بھارتی فوج تعینات کر دی گئی ہے اور سرینگر کے داخلی و خارجی راستے رکاوٹیں لگا کر بند کر دیئے گئے ہیں

مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت پر بھارت کے ڈاکے کو دو سال گزر گئے، دو سال پہلے آج ہی کے دن مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے ریاست کا درجہ چھین لیا تھا اور علیحدہ پرچم بھی اتار لیا تھا۔

ہندو انتہا پسند مودی سرکار نے مقبوضہ جموں کشمیر کو بھارتی یونین کا علاقہ قرار دیا تھا جس کے خلاف آج کنٹرول لائن کے دونوں جانب یوم استحصال کشمیر منایا جا رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے 2 سال مکمل ہونے پر کل جماعتی حریت کانفرنس اور دیگر تنظیموں کی جانب سے ہڑتال کی کال پر مکمل ہڑتال ہے اور مقبوضہ وادی میں آج کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جا رہا ہے، سری نگر کے لال چوک تک مارچ کیا جائے گا۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق سرینگر میں لال چوک تک مارچ روکنے کے لیے بھارتی فوج تعینات کر دی گئی ہے اور سرینگر کے داخلی و خارجی راستے رکاوٹیں لگا کر بند کر دیئے گئے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند رہنما سید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ تاجروں کو ہڑتال کرنے پر بھارتی پولیس نے سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے، تاجروں کو ہڑتال سے باز رکھنے کے لیے دھمکی بھارتی پولیس کا نیا ہتھکنڈا ہے۔

حریت کانفرنس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں 5 اگست سے 15 اگست تک عشرہ مزاحمت منایا جائے گا، 11 اگست کو شیخ عبدالعزیز اور دیگر شہدا کے یوم شہادت پر خراج عقیدت پیش کریں گے۔

حریت کانفرنس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر 14 اگست کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دعائیہ تقاریب کا اہتمام کیا جائے گا جبکہ 15 اگست کو بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔

یاد رہے کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا قانون آرٹیکل 370 اور ریاستی درجہ ختم کر دیا تھا۔

بھارت کے اس فیصلے کی مقبوضہ کشمیر سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر کتھ پتلی رہنماؤں نے بھی مخالفت کی تھی۔

ہندو انتہا پسند مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی رہنماؤں کو ساتھ ملانے کے لیے چال چلتے ہوئے نئی دہلی بلایا اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات بھی کروائی گئی لیکن اس کے باوجود تمام رہنما اس بات پر ڈٹے رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو دوبارہ بحال کیا جائے

Back to top button