بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

600 ارب روپے کے کسان پیکج اور کاشتکاروں کو1800ارب روپے کے بلاسود قرضے دینے کا اعلان

کسان پیکیج کے تحت 6ارب0 4 کروڑ روپے کی سبسڈی دی جائے گی، ڈی اے پی کی قیمت میں 2500 روپے کی کمی کردی گئی

وزیراعظم شہباز شریف نے600 ارب روپے کے کسان پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ  کاشتکاروں کو1800ارب روپے کے بلاسود قرضے دیے جائیں گے  صوبوں کو فوری طور پر شوگرملز چلانے کے لئے اقدامات کی ہدایت کردی پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی فوری طور فعال کی جائیں گی، وفاق اور چھوٹے صوبے مل کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں چھوٹے کسانوں کوتقریبا 8 ارب 20 کروڑ روپے مہیاکریں گے، دیہی علاقوں کے نوجوانوں کو 50ارب روپے کے آسان شرائط پرقرضے دئیے جائیں گے، کسان پیکیج کے تحت 6ارب0 4 کروڑ روپے کی سبسڈی دی جائے گی،  ڈی اے پی کی قیمت میں 2500 روپے کی کمی کردی گئی،  گندم کا مسئلہ نہیں  ہے  صوبے جب بھی چاہیں گے ان کو گندم مہیا کر دی جائے گی سیلاب سے 40ایکڑ رقبے پر فصلیں متاثر ہوئیں، 3 لاکھ ٹیوب ویلزکو سولر پر منتقل کرنے کے لئے  بلا سود قرضے فراہم کریں گے، پانچ سال تک استعمال شدہ ٹریکٹرز کی درآمد کی اجازت دے رہے ہیں مزید 16 لاکھ ٹن گندم درآمد کریں گے۔ وقت ثابت کرے گا ہم مسائل حل کرنے میں کامیاب ہونگے۔

ان خیالا ت کا اظہار انھوں نے پیر کو وزیرہاؤس میں وفاقی وزراء سینیٹر اسحاق ڈار،مریم اورنگزیب اور طارق بشیر چیمہ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ جوشوگر ملز کرشنگ سٹارٹ کرنے  سے گریز کر رہی ہیں ان کے خلاف ریونیوایکٹ کو بروئے کار لایا جائے اس معاملے پر مشروط پر حکومت سرپلس چینی کے سٹاک کا جائزہ لے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اس زیادہ  شاندار پیکج نہیں ہوسکتا تھا، اس پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی، اس پیکج سے زراعت 4 سے 6 مہینے میں اتنی توانا ہوگی کہ ملکی معیشت کو بے پناہ تقویت ملے گی۔ ملک میں گندم کی کمی نہیں ہے، سیلاب نے پورے پاکستان میں تباہی مچائی، 40 لاکھ ایکٹر پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، سندھ میں کھجور کا نام و نشان مٹ گیا، کپاس اور چاولوں کی فصلوں کو نقصان ہوا، اسی طرح گنے کی فصل کا بھی نقصان ہوا۔وزیراعظم کا  کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت کو اگر کوئی چیز آگے بڑھا سکتی ہے تو ہماری زرعی معیشت ہے، زراعت کو تیزی سے آگے بڑھا سکتے ہیں، ایسا شعبہ ہے جو 6 مہینے میں اپنی معیشت کو بالکل ٹرانسفارم کرسکتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ سیلاب متاثرین کو 88 ارب روپے کی نقد اور اشیا کی شکل میں امداد تقسیم کی ہے، وفاق نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے 70 ارب روپے اور 18 ارب روپے این ڈی ایم اے کے ذریعے تقسیم کی ہے، جس میں کمبل، خوارک وغیرہ شامل ہیں۔

شہباز شریف نے بتایا کہ کسانوں کو 18 سو ارب روپے کے قرضہ جات دیے جائیں گے، یہ رقم پچھلے سال کے مقابلے میں 400 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وزیر خزانہ ڈنڈا ہاتھ میں لے لیتے ہیں، بینکوں کو عادت ہے کہ وہ محفوظ سرمایہ کاری کرتے ہیں، ٹی بلز لے لیے، حکومتی بانڈز لے لیے، اور جو اصل شعبے ہیں، چھوٹے کسان، چھوٹے کاروباری لوگ ان کو پوچھتے تک نہیں ہیں، یہ ہمارے مالیاتی نظام میں سب سے بڑی بیماری ہے، مجھے امید ہے کہ ہم اس طرف آگے بڑھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ قرضے پوری طرح کسانوں کو مہیا کیے جائیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جو چھوٹے کسانوں پر جو قرضے تھے، ان پر شرح سود کو معاف کیا جارہا ہے، اس کے لیے 10 ارب 60 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

وزیراعظم شہبازشریف نے مزید کہا کہ اسی طریقے سے وفاق اور چھوٹے صوبے مل کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں چھوٹے کسانوں تقریبا 8 ارب 20 کروڑ روپے ان کو مہیا کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں جو نوجوانوں  ہیں، پہلی مرتبہ  انھیں زرعی شعبے کو شامل کیا گیا ہے، ان نوجوان بے روزگار بچوں کے لیے جو زرعی شعبے میں کام کرنا چاہیں گے، ان کو 50 ارب روپے کے قرضے دیے جائیں گے، اور اس کے لیے حکومت پاکستان 6 ارب 40 کروڑ روپے سے شرح سود میں سبسڈی دے گی، ان کو سستا قرضہ مہیا کریں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ڈی اے پی کھاد کا فی ایکڑ پیداوار بڑھانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے، ڈی اے پی بنانے کے لیے حکومت سستی گیس مہیا کرتی ہے، اس کو آرام سے مہنگے داموں بیچا جاسکتا ہے، ہم نے فرٹیلائزر کمپینوں سے مذاکرت کیے، ان سے ڈی اے پی کھاد کی فی بوری کی قیمت 2 ہزار 500 روپے کم کروائی گئی ہے، اس کے بعد اس کی قیمت کم ہو کر 11 ہزار 250 روپے ہو گئی ہے، کسانوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔وزیر اعظم نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گندم کے سرٹیفائیڈ بیج کی 12 لاکھ بوریاں مہیا کریں گے، اس کے لیے پچاس فیصد پیسے وفاق دے گا، اور پچاس فیصد صوبے دیں گے، اس کے لیے 13 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بے زمین ہاریوں کے لیے بلاسود قرضے دینے 5 ارب روپے مختص کیے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ  اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کسی بھی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ایس ایم ایز کو بھی اسکیم میں شامل کیا گیا ہے، ان کے لیے ہم نے 10 ارب روپے رکھے ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹریکٹرز مینوفیکچرز کی اجارہ داری ہے، پاکستان میں ٹریکٹرز کو درآمد نہیں کیا جاسکتا، ٹریکٹر کی قیمت عام کسان کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہے، ہم نے ان سے قیمتیں کم کرانے کی کوشش ہے، انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ ہم قیمتیں کم نہیں کرسکتے، مجبور ہو کر ہمیں فیصلہ کرنا پڑ رہا ہے کہ باہر سے 5 سال تک استعمال شدہ ٹریکٹرز کی درآمد کی اجازت دے رہے ہیں، اور جو ٹریکٹرز 5 سال پرانے درآمد کیے جائیں گے ان کی ڈیوٹی پر 50 فیصد کی چھوٹ دی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ 5 لاکھ ٹن یوریا کی درآمد کا انتظام کیا گیا ہے جس میں 2 لاکھ ٹن درآمد کی جاچکی ہے، یوریا کی مد میں سبسڈی دینے کے لیے حکومت نے 30 ارب رکھے ہیں۔ا ن کہنا تھا کہ ٹریکٹر سازی کیلیے جو نیا سرمایہ کار آئے گا، اس کو ہم سی کے ڈی پارٹس کی درآمدی ڈیوٹی کم کرکے 35 فیصد سے کم کرکے 15 فیصد کر دی تاکہ وہ آ کر اس میں سرمایہ کاری کریں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مزید 16 لاکھ ٹن گندم درآمد کریں گے، 10 لاکھ ٹن گندم ملک میں آچکی ہے، یقین دلاتا ہوں کہ گندم کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، اور صوبے جب بھی چاہیں گے ان کو گندم مہیا کر دی جائے گی۔شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بجلی سے چلنے والے 3 لاکھ ٹیوب ویلز ہیں، ہم ان کو سولر کی طرف لے جانے کے لیے بلا سود قرضے فراہم کریں گے، ہم کسان سے 13 روپے فی یونٹ فکسڈ لاگت لیں گے، اس کے لیے اضافی 43 ارب روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسان پیکج 600 ارب روپے سے تجاوز کر جاتا ہے، اس سے شاندار پیکج نہیں ہوسکتا تھا، اس پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی، اس پیکج سے زراعت 4 سے 6 مہینے میں اتنی توانا ہوگی کہ معیشت کو بے پناہ تقویت ملے گی۔

سولات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کسان پیکج 600 ارب روپے سے تجاوز کر جاتا ہے، اس سے شاندار پیکج نہیں ہوسکتا تھا، اس پر عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی، اس پیکج سے زراعت 4 سے 6 مہینے میں اتنی توانا ہوگی کہ معیشت کو بے پناہ تقویت ملے گی۔

ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ وفاق چاہے گا کہ شوگر ملیں جلد سے جلد کرشنگ شروع کریں، یہ صوبوں کی ذمہ داری ہے  جب میں وزیراعلی تھا ملز کے خلاف ریونیوایکٹ کو استعمال کرتا تھا۔ جعلی زرعی ادویات سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جب میں وزیراعلی تھا اس وقت جعلی ادویات کا مکمل خاتمہ تھا، کسی کی مجال نہیں تھی کہ وہ جعلی دوا کسان کے حوالے کرے اور اس کی فصل کا بیڑہ غرق کردے لیکن یہ صوبائی معاملہ ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی بھی نگرانی کی ضرورت ہے۔ کسان پیکج سے زرعی شعبہ کچھ ہی عرصے میں مزید مستحکم ہو جائے گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ سیاسی سوالوں کا کل چین جانے سے پہلے جواب دوں گا۔ کسان پیکج کا مقصد فوڈ امپورٹ میں کمی لانا ہے،  کسان پیکج پر عملدرآمد کیا گیا تو زرعی پیداوار بڑھی گی اور ہماری امپورٹ کم  ہو گی، دعا کرتا ہوں کہ تیل اور گیس کی قیمتیں نیچے آئیں، زرعی پیداوار بڑھائیں گے تو ہماری امپورٹ کم ہو گی، پنجاب کے بھی ہر سیلاب سے متاثرہ گھرانے کو 25 ہزار روپے فراہم کیے گئے ہیں، گندم کی قلت اس وقت ختم ہوگی جب ہمارے پاس زیادہ مقدار میں پیدا ہوگی، اگر بلین ٹری آج لگا ہوتا تو موسمیاتی تبدیلی پر بڑا فرق پڑتا، کسانوں کو یقین دہانی کرائی تھی کسان پیکج ان کے مطابق ہوگا، اسحاق ڈار منجھے ہوئے فنانشل ایکسپرٹ ہیں، امید ہے صوبے تعاون کریں گے۔

Back to top button