بسم اللہ الرحمن الرحیم

بین الاقوامی

انخلا کے منصوبے کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں، جوبائیڈن

امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی انخلا کو انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ 31 اگست سے قبل انخلا کا آپریشن طالبان کی من مانی ڈیڈلائن کی وجہ سے نہیں بلکہ امریکیوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے طے شدہ منصوبے کے تحت کیا۔

افغانستان سے امریکی انخلا مکمل ہونے کے بعد وائٹ ہاؤس میں قوم سے پہلے خطاب میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ وہ انخلا کے منصوبے کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے 120،000 سے زائد افراد کو نکالنے کے مشن کو ایک غیر معمولی کامیابی قرار دیا۔

بائیڈن نے کہا کہ اس انخلا کی کامیابی ہماری فوج کی بے لوث جرأت کی وجہ سے ہوئی، انہوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر دوسروں کی خدمت کی، تاریخ میں کبھی کسی قوم نے ایسا نہیں کیا، یہ صرف امریکا نے کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کا منصوبہ پہلے سے تیار شدہ تھا ،ہم نے  اپریل میں امریکی انخلاکافیصلہ کیا  جبکہ افغانستان سے انخلا سول اور فوجی قیادت کا متفقہ فیصلہ تھا۔

امریکی صدر نے کہا کہ 31 اگست سے قبل انخلا کا آپریشن طالبان کی من مانی ڈیڈلائن کی وجہ سے نہیں بلکہ امریکیوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے طے شدہ منصوبے کے تحت کیا۔

 امریکی صدر نے  قوم سے خطاب میں کہاکہ ہم نے  افغانستان میں 20 سال تک 30 کروڑ ڈالر روزانہ خرچ کیے  جبکہ افغان جنگ میں 2400 سے زیادہ امریکی فوجی ہلاک اور تقریباً 23 ہزار زخمی ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم  امریکا کی اگلی نسل کو ایسی جنگ میں نہیں جھونکنا چاہتے جو بہت پہلے ختم ہوجانی چاہیے تھی۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہاکہ  ہم نے اُسامہ بن لادن کو ایک دہائی پہلے ہی سبق سکھا دیا تھا اور  القاعدہ کو شکست دی ، اب دنیا بدل رہی ہے ، نئی دنیا میں داعش ، الشباب اور القاعدہ کی ذیلی تنظیمیں خطرات ہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ داعش کے حملے میں 13 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا حق ادا نہیں کر پائیں گے جبکہ  داعش خراسان کے خلاف ہماری جنگ ختم نہیں ہوئی۔

جو بائیڈن کا کہنا تھا  کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ایک سخت ، ناقابل معافی ،  اور درست حکمت عملی کے ساتھ جنگ جاری رکھیں گے۔

امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ 17 دن تک 24 گھنٹے انخلا کا کام جاری رہا ، کابل ائیرپورٹ کی سکیورٹی کیلئے میں نے 6 ہزار فوجی بھیجے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ افغان صدر ملک سے فرار ہو جائیں گے ۔

امریکی صدر  نے کہا کہ طالبان کے کہنےپریقین نہیں ان کے عمل کو دیکھیں گے،اُمید ہے کہ طالبان وعدے پر قائم رہیں گے۔

جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا مشن اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک امریکی اوراتحادی وہاں سےانخلا چاہیں گے ،ہم   90 فیصد امریکی شہریوں کو افغانستان سےنکال چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے100 سے 200 امریکی باشندے اب بھی افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں،جو امریکی شہری اب بھی افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں ان کی مدد کی جائے گی۔

امریکی صدر نے کہا کہ انخلا میں دیر کرتے تو حالات پھر بھی خطرے سے خالی نہ ہوتے ،سب کچھ بدل چکا ہے، افغانستان میں تیسری دہائی بھی گزارنا قومی مفاد میں نہیں تھا ۔

انہوں نے کہا کہ جب میں اقتدار میں آیا تو طالبان کے ساتھ 2020 کا معاہدہ طے ہو چکا تھا، ٹرمپ کی طالبان سے ڈیل کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی تھی اگر ہم افغانستان میں مزید رہتے تو طالبان کو ہمارے فوجیوں پر حملے کا حق ہوتا ، ہم غیر معینہ مدت کیلئے مزید افغانستان میں نہیں رہ سکتے تھے ۔

 جو بائیڈن کا کہنا تھا  کہ  افغانستان میں ہمارا مفاد نہیں ، اب وقت تھا کہ جنگ کا خاتمہ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ  ہمیں چین اور روس کی جانب سے بہت سے نئے چیلنجز کا سامنا ہے ،روس اور چین چاہتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں الجھا رہے۔

امریکا نے پیر کی شب کو 31 اگست کی ڈیڈلائن ختم ہونے سے قبل ہی افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کرلیا تھا۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں طالبان نے کہا تھا کہ 31 اگست تک امریکا اپنا انخلا مکمل کرے اور اگر 31 اگست کے بعد بھی امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہتے ہیں تو اسے قبضے میں توسیع سمجھا جائے گا اور نتائج کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔

طالبان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک ایک بھی امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہے حکومت کا اعلان کریں گے نہ کابینہ تشکیل دیں گے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی 31 اگست تک امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا مکمل ہونے کی اُمید ظاہر کی تھی اور اب امریکا نے افغانستان سے انخلا ڈیڈلائن سے قبل ہی مکمل کیا  اور اس انخلا کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے ۔

امریکا کی طویل ترین جنگ میں تقریباً 50 ہزار افغان شہری، 2500 امریکی فوجی ، 66 ہزار افغان فوجی اور پولیس اہلکار، 457 برطانوی فوجی اور 50 ہزار طالبان و دیگر امریکا مخالف جنگجو ہلاک ہوئے۔

افغان جنگ کی نگرانی 4 امریکی صدور نے کی جبکہ اس پر ایک اندازے کے مطابق 2 کھرب ڈالر کے اخراجات آئے۔

جنگی اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض کی مد میں لی گئی بیشتر رقم پر امریکا کی کئی نسلوں کو سود کی مد میں 6 کھرب ڈالرز ادا کرنے ہوں گے ۔

Back to top button