بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

ترقی پذیر ممالک کو کم از کم 4.3 کھرب ڈالر کی مدد کی ضرورت ہے،شاہ محمود قریشی

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری بڑھانے اور کورونا کی وبا سے متاثرہ معیشتوں کو بہتر بنانے کے لیے تعاون پر زور دیتے ہوئے چین کے عالمی ترقی کے اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔

سرکاری خرایجنسی اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق جی۔77 اور چائنا گروپ کی سربراہی سنبھالنے کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں پائیدار انفراسٹرکچر کے لیے سالانہ 1.5 کھرب ڈالر سرمایہ کاری اور کم از کم 4.3 کھرب ڈالر کی مدد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی۔77اور چائنا گروپ کو مساوات اور ترقیاتی اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے عالمی مالیاتی ڈھانچے اور عالمی تجارتی نظام میں مناسب اصلاحات کو بھی فروغ دینا چاہیے، ہمیں عدم مساوات اور غربت بڑھانے کی پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی معاشی تعاون کے لیے اس گروپ نے کئی تخلیقی تصورات اور طرز فکر پیش کیے جن میں ترقی پذیر ممالک کے لیے تجارت میں ترجیحی اور خصوصی سلوک، انتہائی غریب ممالک کو منڈیوں تک ڈیوٹی فری رسائی جیسے اقدامات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کہ موجودہ مشکل حالات میں ہمارے گروپ کے لیے یہ امرنہایت ضروری ہے کہ ہم مساوات اور شفافیت کی فضا میں اپنے عوام کی خوش حالی کے فروغ کو یقینی بنانے کے لیے گروپ کی اجتماعی کوششوں کے لیے اتحاد برقرار رکھیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اب بھی مہلک وائرس سے لڑ رہے ہیں، جس نے بڑے پیمانے پر انسانی، معاشی اور نفسیاتی نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شکلیں بدلتے کورونا وائرس سے نمٹنے اور اس وباکے خاتمے کا بہترین طریقہ ویکسین کی پیداوار اور عالمگیر تقسیم اور صحت کے نظام کو تقویت دینا ہے، وبا نے ترقی پذیر ممالک کو انتہائی غیرمتناسب انداز میں متاثر کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جانوں کے ضیاع کے علاوہ 15 کروڑ لوگ انتہائی غربت میں جا چکے ہیں، 20 سے زائد ممالک غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، خاص طور پر افریقہ کے جنگ زدہ علاقوں اور افغانستان میں قحط کا دور دورہ ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جی۔20 کی طرف سے قرض معطلی اور ترقیاتی اداروں کی طرف سے وسیع مالی مدد کے باوجود ترقی پذیر دنیا کو اپنی معیشت چلانے کے لیے 100 ارب ڈالر سے کم ملے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو کم از کم 4.3 کھرب ڈالر کی مدد کی ضرورت ہے، یہ وسائل تمام ممکنہ ذرائع سے دستیاب کرنا ہوں گے۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کی بحالی ممکن نہیں ہوسکتی، اگر ان کے پاس پہلے سے موجود بجٹ بھی کفایت شعاری سے مزید سُکڑ جائے، کسی ملک کو اس کے عوام کی خدمت کرنے سے روکا نہ جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایک انتہائی اہم معاملہ ترقی پذیر ممالک سے کھربوں ڈالرز کی ناجائز دولت کا بہاؤ ہے، جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک کی شرح نمو اور ترقی حاصل کرنے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک سے لوٹے گئے اثاثہ جات بلاتاخیر اور بلا ہچکچاہٹ واپس کیے جائیں، ہمیں منی لانڈرنگ اور ٹیکس تعاون سے متعلق نئے قوانین بنانا ہوں گے اور اقوام متحدہ کی باڈی قائم کرنا ہوگی جو ایف اے سی ٹی آئی پینل کی سفارشات کے مطابق ناجائز سرمائے کے بہاؤ کی نگرانی کے علاوہ اس کی روک تھام اور واپسی میں کردار ادا کرے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی مالیات اور تجارت کمزور ترین کو پیچھے چھوڑ کر جاری نہیں رہ سکتی، ہمارے ممالک کو توانائی، ٹرانسپورٹ، مینوفیکچرنگ اور زراعت میں ضروری ڈھانچے کی تیاری کی ضرورت ہے، جس سے شرح نمو ممکن ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں پائیدار انفراسٹرکچر کے لیے سالانہ 1.5 کھرب ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور اقوام متحدہ اس حوالے سے قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے اور اسے یہ کردار اداکرنا ہوگا۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم چین کے عالمی ترقی کے اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں، ہمارے گروپ کے اندر تعاون کی ایسی اور بھی کئی کامیاب مثالیں ہیں، ہمیں نارتھ ساؤتھ کوآپریشن کو تبدیل کیے بغیر ساؤتھ کوآپریشن کو تقویت دینا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ممالک اور عوام کو بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے، ہمیں ان پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو عدم مساوات اور غربت بڑھا رہی ہیں، ہمیں ترقی پذیر ممالک کے جائز مقاصد اور خواہشات پر شمال کی طرف سے مثبت جواب کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ جی77 پلس چائنا کے نام سے بلاک کا قیام 15 جون 1964 کو عمل میں آیا تھا اور اس گروپ کا نام دستخط کرنے والے 77 ممالک کی وجہ سے جی77 رکھا گیا تھا تاہم اب اس کے ارکان کی تعداد 134 ہے۔

پاکستان اس گروپ کا بانی رکن ہے اور گزشتہ ماہ کو پاکستان کا اس گروپ کے چیئر کے طور پر انتخاب کیا گیا تھا۔

Back to top button