بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

ارشد شریف کا قتل، امریکا کا کینیا سے مکمل تحقیقات پر زور

امریکا نے سینیئر صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کینیا کی حکومت سے واقعے کی مکمل تحقیقات پر زور دیا ہے۔واشنگٹن میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ کن حالات میں ارشد شریف کی موت واقع ہوئی ہے لیکن ہم اس کی مکمل تحقیقات پر زور دیتے ہیں۔

پاکستانی صحافی کی جانب سے ارشد شریف کے قتل اور پاکستان میں آزادی صحافت کی صورتحال سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’پہلے تو میں آپ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں، میں ارشد شریف کے ساتھیوں، ان کے چاہنے والوں، اہل خانہ اور ان تمام لوگوں سے اظہار تعزیت کرتا ہوں جو ان سے اور ان کے کام سے واقف تھے، ارشد شریف کی وفات پر ہمیں گہرا دکھ ہوا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ہم کینیا کی حکومت کی جانب سے ارشد شریف کی موت کی مکمل تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں، یہ مکمل طور پر واضح نہیں ہے کہ کن حالات ان کی موت واقع ہوئی ہے لیکن ہم اس کی مکمل تحقیقات پر زور دیتے ہیں۔

پاکستانی صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ ’ارشد شریف سے ایک روز قبل ہی بات ہوئی تھی اور انہوں نے بتایا تھا کہ دبئی سے امریکا کے ویزہ کے لیے اپلائی کیا ہے لیکن ویزہ مسترد ہوگیا، تو کیا قتل کی دھمکیوں کا سامنا کرنے والے صحافیوں کے لیے کوئی مخصوص شرائط ہیں؟‘

جواب میں نیڈ پرائس نے کہا کہ میرے لیے کسی مخصوص فرد کے حوالے سے بات کرنا مشکل ہے لیکن ایسے لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر تحفظ دینے کے لیے ہمارے دنیا بھر میں پروگرامز موجود ہیں جو آزادی اظہار رائے اور معلومات کے حصول جیسے عالمگیر حق کا استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے کام سے واضح ہے کہ انہوں نے خود کو آزادی اظہار رائے کے بنیادی حق کے لیے وقف کیا ہوا تھا، دنیا بھر میں لوگ ان کے کام سے واقف تھے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں جب بھی ہمیں کسی ملک کی جانب سے ایسے لوگوں کو ڈرانے، ہراساں کرنے اور ان کی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوششوں کا علم ہوا جو اظہار رائے کی آزادی کے لیے پُرعزم ہیں تو امریکی محکمہ خارجہ اور دیگر اداروں نے ان کے خلاف کارروائی کی ہے۔

نیڈ پرائس سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستانی سیاسی نظام پر تنقید کرنے والے جلاوطن صحافی خود کو امریکا میں سو فیصد محفوظ سمجھ سکتے ہیں؟ نیڈ پرائس نے جواب دیا کہ امریکا ایک ایسا ملک ہے جو ان تمام حقوق کی پاسداری کرتا ہے جو ہمارے آئین میں درج ہیں، میں یقیناً یہاں ہر کسی کو مشورہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں لیکن یہ وہ حقوق ہیں جو امریکا کے ڈی این اے میں شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ حقوق عالمگیر ہیں، یہ وہ حقوق ہیں جن کا تحفظ صرف یہاں نہیں بلکہ دنیا بھر کے معاشروں میں ہونا چاہیے اور جب دیگر ممالک ان حقوق کا احترام کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو امریکا اس کے لیے آواز اٹھاتا ہے اور یہ ایک اچھی بات ہے‘۔

ایک صحافی کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کے اتنخابات میں حصہ لینے پر پابندی سے متعلق تبصرے کے لیے سوال پر نیڈ پرائس نے کہا کہ ’ہم پاکستان کی اندرونی سیاست یا عدالت اور سیاسی نظام کے درمیان تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے‘۔

Back to top button