بسم اللہ الرحمن الرحیم

بین الاقوامی

مودی سرکار نے کسانوں کے احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ وہ متنازع زرعی قوانین منسوخ کردیں گے جن کے خلاف کسان ایک سال سے زائد عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں، یہ سخت گیر رہنما کی نمایاں شکست ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 3 قوانین پر اچانک رعایت کا فیصلہ آئندہ سال کے آغاز میں بھارت میں سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش اور دیگر 2 شمالی ریاستوں، جہاں بڑی تعداد میں دیہاتی آباد ہیں، میں انتخابات سے قبل سامنے آیا۔

نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں آج آپ کو اور پوری قوم کو یہ کہنے آیا ہوں کہ ہم نے زراعت سے متعلق اصلاحات واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ رواں ماہ کے بعد شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں تمام قانونی کارروائیاں پوری کی جائیں گی تاکہ ان 3 زرعی قوانین کو واپس لیا جاسکے‘۔

گزشتہ سال ستمبر میں متعارف کرائے گئے قوانین کا مقصد شعبہ زراعت کو آزاد کرنا تھا جس کے تحت کسانوں اپنی فصل حکومت کے مخصوص نرخوں پر سرکاری مارکیٹوں کے بجائے دیگر ہول سیل مارکیٹوں میں فروخت کرنے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ کاشت کاروں کو کم سے کم قیمت ملنے کا یقین تھا۔

کسانوں کو خوف تھا کہ فصلوں کی قیمتیں کم ہوجائیں گی جس کی وجہ سے انہوں نے ملک گیر احتجاج کیے تھے۔

احتجاج میں رضا کار اور مشہور شخصیات سمیت بھارت کے علاوہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے سماجی رہنما گریتا تھنبرگ اور ریہننا نے بھی شرکت کی تھی۔

ناقدین کا کہنا تھا کہ مودی کے سر تسلیم خم کرنے سے فارمز کی سبسڈی اور رعایتی قیمتوں کے نظام کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے حکومت یہ برداشت نہیں کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سرمایہ کاروں کےلیے بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے کیونکہ یہاں معاشی پالیسیوں پر سیاسی مفاد غالب ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں نئی دہلی میں بڑے احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے جہاں کسانوں نے سڑکوں پر کیمپ لگا کر دھرنے دیتے ہوئے قوانین واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

کسانوں کے گروپ رہنما راکیش ٹیکیٹ نے ٹوئٹر پر کہاکہ احتجاج روک دیا گیا ہے، اور ہم اسمبلی کے قانون واپس لینے کا انتظارکریں گے۔

گزشتہ سال مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کہنا تھا کہ قوانین منسوخ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،تاہم بعدازاں حکومت نے قانون کو کمزور کرتے ہوئے کسانوں کے ساتھ مذاکرات کے تعطل کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن طویل دورانیہ مذاکرات ناکام رہے تھے۔

Back to top button