بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

صحافیوں کو ہراساں کرنے کے مقدمات درج کرنے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

سپریم کورٹ کو آگاہ کیا گیا کہ اسلام آباد پولیس نے گزشتہ ایک برس کے دوران 32 افراد کے مقدمات ٹرائل کورٹس میں جمع کرائے ہیں جن پر 16 صحافیوں کی جان لینے یا ان پر حملہ کرنے میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

 رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس آپریشنز کی جانب سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 13 ستمبر سے رواں سال 12 ستمبر تک پولیس کی جانب سے درج کیے گئے 16 مقدمات میں سے 4 ابھی بھی زیر تفتیش ہیں۔

یہ رپورٹ سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ کی ہدایت کی تعمیل میں پیش کی گئی جس میں پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ (پی اے ایس) کی جانب سے ایک صحافی کی ہراساں سے متعلق شکایت پر از خود نوٹس لیا تھا۔

13 ستمبر کو سماعت پر عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے استفسار کیا تھا کہ کیا صحافیوں پر مبینہ حملوں کی تحقیقات ہوئی ہیں اور مجرموں کو کٹہرے میں لایا گیا ہے؟

آئی جی پی نے عدالت کو بتایا کہ ناکافی شواہد کی وجہ سے کچھ کیس حل نہیں ہوئے ہیں جس پر عدالت نے آئی جی پی کو حکم دیا کہ وہ گزشتہ ایک برس کے دوران صحافیوں پر ہونے والے تمام حملوں کے بارے میں ایک جامع رپورٹ پیش کریں۔

رپورٹ میں وضاحت کی گئی کہ یہ معاملہ اسلام آباد پولیس کے تمام زونل سپرنٹنڈنٹس کو ہدایت کے ساتھ بھیجا گیا تھا کہ صحافی برادری پر ہونے والے حملے، ان کو ملنے والی دھمکیاں اور انہیں ہراساں کیے جانے والے مقدمات کی تفصیلات پیش کی جائیں۔

رپورٹ میں سپریم کورٹ کو یقین دلایا گیا کہ دیگر 4 مقدمات میں ملوث مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں اور یہ کہ تحقیقات منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں گی۔

ان 4 کیسز جو ابھی زیر تفتیش ہیں، ان میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے سابق چیئرمین ابصار عالم کی جانب سے درج کردہ شکایات بھی شامل ہیں۔

رواں سال 20 اپریل کو اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ سے متصل فیملی پارک میں سیر کے دوران انہیں گولی لگی تھی۔ پولیس کے مطابق انہوں نے وقوعہ کے آس پاس موجود 22 افراد سے تفتیش کی، وقوعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی اور شناخت کے لیے نادرا کو بھجوائی۔

فیملی پارک کے سیف سٹی کیمروں کی مدد سے ملزم کی نقل و حرکت کا بھی جائزہ لیا گیا۔

صدر پولیس کے سپرنٹنڈنٹ کو ہدایت کی گئی کہ وہ شکایت کنندہ سے رابطے میں رہیں اور تحقیقات کی نگرانی کریں۔

Back to top button