بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

ایٹمی پروگرام 22 کروڑ عوام کی ملکیت ہے،احسن اقبال

عمران خان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ دنیا کو کہیں کہ ایٹمی پروگرام پر بات ہوسکتی ہے

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے وزیراعظم کے بیان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی بات یا سمجھوتہ نہیں ہوسکتا، عمران خان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ دنیا کو کہیں کہ ایٹمی پروگرام پر بات ہوسکتی ہے۔

قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ‘کس نے اس وزیراعظم کو حق دیا ہے کہ وہ دنیا کو کہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بات ہوسکتی ہے، پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی بات نہیں ہوسکتی اور کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ کہتے ہیں کشمیر کا مسئلہ حل کردو ہم ایٹمی پروگرام بند کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمیں ایٹمی پروگرام کی ضرورت نہیں ہے، جناب عمران خان آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے’۔

احسن اقبال نے کہا کہ ‘آپ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بات نہیں کرسکتے، ایٹمی پروگرام 22 کروڑ عوام کی ملکیت ہے، جس کے لیے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘آج بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے کہ عمران خان کو پاکستان ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے لیے سازش کے طور پر پاکستان پر مسلط کیا گیا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ وہ بیرونی ڈونرز کا ایجنڈا ہے، ہم بھی حیران تھے کہ فارن فنڈنگ کیس میں بلی تھیلے کے اندر کیوں بند ہے، فارن فنڈنگ میں ڈونرز نے جو پیسہ دیا تھا اس کا ایجنڈا یہی تھا کہ عمران خان سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے اوپر کہلوائے کہ ہم اس کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں’۔

احسن اقبال نے کہا کہ ‘میں اس ایوان کے ذریعے یہ اعلان کرتا ہوں کہ چاہے کشمیر کا مسئلہ حل ہو یا نہ ہو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی بات نہیں ہوسکتی اور کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا’۔

علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ ‘جناب وزیراعظم ہماری ایٹمی پالیسی کا مسئلہ کشمیر سے کوئی تعلق نہیں ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اس کا ایک تاریخی پس منظر ہے، جیسا کہ 1971 میں بھارت سے جنگ، خطے میں بالادستی کے لیے موجودہ ہندوتوا ارادوں کے لیے ایٹمی صلاحیت ہی توڑ ہے’۔

سوال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ کا بیان پالیسی ہے یا مکمل طور پر نا سمجھی ہے؟’

Back to top button