
ایران کی جوہری سرگرمیوں پر خطرناک موڑ، اسرائیل حملے کے لیے تیار
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایران کی جوہری سرگرمیوں پر ایک اہم اور حساس نوعیت کی ٹیلیفونک گفتگو آج اختتام پذیر ہو گئی ہے۔ اس گفتگو کے بعد خطے میں ایک ممکنہ فوجی تصادم کی قیاس آرائیاں شدت اختیار کر گئی ہیں۔
میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے لیے مکمل طور پر “لاک اینڈ لوڈ” ہے۔ تاہم، اس بڑے اقدام کا انحصار امریکی صدر کی طرف سے جاری مذاکرات کے نتائج پر کیے جانے والے کسی بھی ممکنہ اعلان پر ہے۔ اگر صدر ٹرمپ تہران سے مذاکرات کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان کر دیتے ہیں، تو اسرائیلی فضائیہ کو فوری طور پر کارروائی کی اجازت مل سکتی ہے۔
صورتحال کو مزید سنگین بناتے ہوئے، بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے تصدیق کی ہے کہ ایران نے حال ہی میں غیر اعلانیہ جوہری تجربات کیے ہیں۔ یہ انکشاف عالمی سطح پر شدید تشویش کا باعث بن رہا ہے اور خطے میں کشیدگی کو نئی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے۔
اسرائیلی حکام نے کسی ممکنہ حملے کے وقت یا حکمت عملی کے بارے میں باضابطہ طور پر کچھ نہیں کہا، تاہم باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو آج رات ایک محدود، بند کمرہ سیکیورٹی اجلاس کی صدارت کریں گے، جس میں موجودہ صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔
ادھر عالمی برادری اور علاقائی ممالک کسی بھی ممکنہ پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے سفارتی کوششیں ماند پڑتی جا رہی ہیں، خطہ ایک ممکنہ بڑے فوجی تصادم کی دہلیز پر کھڑا دکھائی دے رہا ہے — جو ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری طویل کشیدگی میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔