بسم اللہ الرحمن الرحیم

تجارت

لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ کا ساتواں ایڈیشن اسلام آباد میں شروع

لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ (ایل آئی آئی بی ایس) کا ساتواں ایڈیشن اسلام آباد میں شروع ہوگیا ہے۔ ”ترقی کے لیے تعاون“ کے موضوع پر دو روزہ سمٹ کی میزبانی نٹ شیل گروپ اور یونٹی فوڈز کررہے ہیں، جس کے لیے انہیں اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او آئی سی سی آئی) کا تعاون حاصل ہے۔ فیصل بینک لمیٹڈ پلاٹینیم پارٹنر اور انفرا ضامن پاکستان اسٹریٹجک پارٹنر ہیں۔ ایل آئی آئی بی ایس میں مشاورتی کام، خیالات و مہارت کا تبادلہ اور علاقائی و عالمی معیشتوں کے مفاد میں مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ 2024 کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے رواں ہفتے آخری قسط ملنے کا امکان ہے۔ جون تک زرمبادلہ ذخائر 10 ارب ڈالرز کی سطح پر پہنچ جائیں گے۔ زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ قرض لینے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ مارکیٹ آپریشن و دیگر اقدامات کے سبب ہوا ہے۔ عالمی مانیٹری فنڈ سے نئے پروگرام کے لیے اسٹاف لیول معاہدہ جون یا جولائی میں ہونے کا امکان ہے۔ ہم نے آئی ایم ایف سے طویل مدتی پروگرام کی استدعا کی ہے کیونکہ ہم میکرو اکنامک اقدامات اور اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد کرکے ملکی معیشت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ معیشت میں ٹیکس کا حصہ 9 فیصد ہے، جو خطے میں سب سے کم ہے۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات ضروری ہے۔ انرجی سیکٹر کے نقصانات کم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت مہنگائی کنٹرول کرکے کمزور طبقات کو ریلیف دینا چاہتی ہے۔ رواں مالی سال افراط زر 24 فیصد رہنے کا امکان ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 29.2 فیصد سے کم ہے۔ مہنگائی میں کمی کے رجحان کو دیکھتے ہوئے پالیسی ریٹ 22 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا، اسی وجہ سے تمام وزراتوں کو کہا ہے کہ سرکاری اداروں کو نجکاری کے طرف لے جائیں۔ وزارت خزانہ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور وزارت قانون کے تعاون ٹیکسوں میں اضافے کے لیے کوشاں ہیں۔ رواں مالی سال ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 30.2 فیصد اضافے سے 6707 ارب روپے کے مقررہ ہدف سے بڑھ گئی ہے۔ ہمیں ٹیکس نیٹ میں خاطر خواہ اضافے کے لیے صوبوں کی مشاورت سے چلنا ہوگا۔ ٹیکس کیسز ٹریبونلز میں ہیں، جن کے فیصلے نہیں ہورہے۔ ہم نے ٹریبونلز سے درخواست کی ہے کہ وہ اگلے 3 سے 4 ماہ میں کیسز کا فیصلہ کریں۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومتی اقدامات اور شراکت داروں کے ساتھ بہتر ہم آہنگی کے سبب معاشی صورتحال بہتر ہورہی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارہ میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ جولائی 2023 تا فروری 2024 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ مالی سال کے 3.9 ارب ڈالرز کے مقابلے میں 74 فیصد کم ہو کر 1.0 ارب ڈالرز رہ گیا۔ مارچ 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 22.7 ارب ڈالر زکے مقابلے میں 24.9 فیصد کم ہو کر 17.0 ارب ڈالرز کی سطح پر آگیا۔زراعت کا شعبہ 5 فیصد جی ڈی پی کی شرح سے ترقی کررہا ہے۔ اہم فصلوں کی ملکی پیداوار میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ زرعی پیداوار میں اضافے کا صنعتی شعبے پر مثبت اثر پڑے گا۔ رواں مالی سال جولائی تا فروری زرعی شعبے کے قرضوں میں 33.6 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔حکومت غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ سولرائزیشن، یوتھ انٹرپرینیور شپ، آئی ٹی سیکٹر، ایس ایم ایز، زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافے کو فروغ دیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیے  پنجاب میں سرمایہ کاروں کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرینگے، وزیر اعلیٰ

وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ ہم تمام اخراجات ادھار لے کر کر رہے ہیں۔ پاکستان کو آئندہ تین سال میں 70 ارب ڈالرز ادا کرنے ہیں۔ اگر اگلے سات سے آٹھ سال میں برآمدات 100 ارب ڈالرز تک لے گئے تو ہم ٹیک آف کر جائیں گے۔ حکومت کی آمدن 7000 ارب روپے ہے، جب کہ ہمیں 8000 ارب روپے قرض دینا ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی میں ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ ہے۔ ہمیں قرض اتارنے اور ملک چلانے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔اس طرح کام نہیں چلے گا۔ معاشی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے امن، استحکام اور پالیسیز کا تسلسل ضروری ہے اور کم از کم دس سال کا تسلسل ہونا چاہیے۔ اگر سیاسی تسلسل قائم نہ ہوا تو ہم دائروں میں گھومتے رہیں گے۔ جاپان، ملائیشیا، سنگاپور، چین، ویت نام، بھارت، بنگلادیش اورترکی وغیرہ کی کامیابی کا راز امن، استحکام اور پالیسی کا تسلسل ہے۔ بھارت میں من موہن سنگھ نے دس سال حکومت کی اور اب نریندر مودی دس سال سے حکومت کررہے ہیں، بنگلا دیش میں حسینہ واجد 15 سے حکومت میں ہیں، ترکی میں طیب اردگان 20 سال سے حکومت کررہے ہیں،لیکن پاکستان میں ایسا نہیں۔

احسن اقبال نے مزیدکہا کہ اللہ نے پاکستان کو بے شمار وسائل سے نوازا گیا ہے، ضرورت اتحاد کی ہے۔ آئندہ 24 برسوں میں 9 فیصد کی شرح سے ترقی پاکستان کو 2047 تک 3 ٹریلین امریکی ڈالرز کی معیشت بنادے گی۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ایس آئی ایف سی اچھا اقدام ہے۔ وزیراعظم جلد سعودی عرب کا دورہ کریں گے اس کے بعد سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان متوقع ہے۔ سعودی عرب جلد پانچ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا۔ چین کے ساتھ بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دوسرے فیز کے لیے بات چیت جاری ہے۔ یو اے ای، کویت اور قطر سے بھی سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت ہورہی ہے۔

قبل ازیں نٹ شیل گروپ کے بانی اور سی ای او محمد اظفر احسن کے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ پاکستان اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے، تاہم مجھے امید ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی قیادت میں فنانس ٹیم پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے میں کامیاب رہے گی۔ پاکستان میں ہر شعبے میں طویل مدتی حکمت عملی کا فقدان ہے، چاہے وہ سرمایہ کاری ہو، معیشت ہو، آب و ہوا ہو، صحت ہو یا تعلیم ہو۔ ملکی ترقی کے لیے تعلیمی نظام میں بہتری لانی بہت ضروری ہے۔

ایس اے پی (SAP) کے کنٹری منیجنگ ڈائریکٹر پاکستان، عراق، بحرین اور افغانستان ثاقب احمد نے کہا کہ پاکستانی ڈور ہمیں جوڑے ہوئے ہے، جب قومی ترانہ بجتا ہے تو ہمارا دل تیزی سے دھڑکنا شروع ہوجاتا ہے۔ پاکستان کو ہمیشہ سے نازک موڑ سے گزر تا دیکھا ہے۔ کیا کبھی ہم اس نازک موڑ سے نکل سکیں گے؟ اب وقت آگیا ہے کہ اصلاحات اور پالیسیوں میں تسلسل کے ذریعے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔

چیف ایگزیکٹو آفیسر، انفرا ضامن، پاکستان ماہین رحمان نے کہا کہ پاکستان میں نجی شعبے کے قرض لینے کی شرح جی ڈی پی کا 17 فیصد ہے، جب کہ بھارت اور بنگلا دیش میں نجی شعبہ جی ڈی پی کے 50 سے 60 فیصد شرح کے حساب سے قرض لیتا ہے۔ مضبوط بینکنگ منصوبوں کے لیے نجی شعبے کے قرضوں میں اضافہ ضروری ہے۔ نجی شعبہ ملکی ترقی کے لیے اہم ہے۔ ہمیں مالی استحکام کے لیے دوسروں پر انحصار ختم کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیے  سونے کی فی تولہ قیمت میں 300 روپے اضافہ

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ پاکستان کو درپیش اہم مسائل میں سکیورٹی، اندرونی اور علاقائی مسائل اہم ہے۔ دہشت گردی، ڈکیتی، گاڑیوں کی چوری، موبائل فون چھیننا اور دیگر جرائم بڑھ گئے ہیں۔ فروری کے انتخابات کے بعد بھی سیاسی طاقتوں کے درمیان اختلافات ہیں، جس کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنا ہوں گے۔ مہنگائی ملکی تاریخ کی بلند سطح پر ہے۔ سرمایہ کاری میں کمی کے باعث سے فی کس آمدن کم ہورہی ہے۔ ہمیں ماحولیاتی میدان میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ سیلاب، بارشیں، بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔غزہ میں جاری جنگ بند کرانا دنیا کی اہم ترجیح ہونی چاہیے۔

وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کا شعبہ بہت مسائل کا شکار ہے، جس کے لیے پالیسی اور طریقہ کار کو بہتر بنانا ہوگا۔ معاشی ترقی کی قربانی دے کر بجلی کا شعبہ نہیں بچانا۔پاور سیکٹر کے لیے مسابقتی مارکیٹ قائم اور ٹیرف کی ری اسٹرکچرنگ کررہے ہیں۔ انفرااسٹرکچر شیئرنگ سے بجلی کے شعبے میں بہتر طورپر کام ہوسکے گا۔ بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو اندرونی آزادی دی جائے گی۔صنعتی سبسڈی برداشت نہیں کی جائے گی۔ معاشی لحاظ سے کمزور طبقات کو سستی بجلی دینا حکومت کا کام ہے نہ کہ صنعتوں کو۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری اور باقی کو طویل مدتی رعایتی معاہدے دینے کی بات ہورہی ہے۔ پاور سیکٹر کو ٹھیک کرنے کے لیے نجی شعبہ ہماری مدد کرے۔ بھاشا اور داسو ڈیم سے ہزاروں میگاواٹ بجلی سسٹم میں داخل ہوگی۔

وفاقی وزیر توانائی نے مزید کہا کہ ہم بجلی مناسب قیمت پر پیداوار کر کے صارفین کو فراہم نہیں کررہے ہیں، جس کے باعث لوگ آف گرڈز ہورہے ہیں اورگرڈز سے بجلی کی طلب میں تیزی سے کمی ہورہی ہے۔ لوگوں نے شمسی توانائی کے 6800 میگاواٹ بجلی پیداکرنے کے آلات منگوائے ہیں۔ میرے 56 زرعی ٹیوب ویل آف گرڈ ہوگئے ہیں۔ کے۔ الیکٹرک کی نجکاری ایک اچھا تجربہ ہے اور اس سے حکومت کو سیکھنا چاہیے۔

کے۔ الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) مونس عبداللہ علوی نے کہا کہ نجکاری کے ذریعے ہی پاور سیکٹر کو سرکلر ڈیبٹ سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ طویل عرصے سے پی آئی اے کی نجکاری کا سن رہے ہیں جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوگا، قومی خزانے پر بوجھ کم نہیں ہوگا۔2005 میں نجکاری کے بعد سے کے۔ الیکٹرک بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے شعبے میں کام کررہی ہے۔ بجلی کی ترسیل کا نظام مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کردیا گیا ہے جبکہ ڈسٹری بیوشن کے نظام کو بھی ڈیجیٹلائز کررہے ہیں۔

مونس علوی نے مزید کہا کہ نجکاری کے وقت کے۔ الیکٹرک کے نقصانات 37.6 فیصد تھے جو اب کم ہوکر 14 فیصد رہ گئے ہیں۔ نجکاری کے بعد کے۔ الیکٹرک کی رائٹ سائزنگ کی گئی۔ ملازمین کی تعداد 18 ہزار سے زائد تھی جس میں انجینئرز سے زائد مالی تھے۔ ٹیلکس مشین ختم ہوگئی مگر آپریٹرز موجود تھے۔ اس وقت کے۔ الیکٹرک میں 12 ہزار ملازمین ہیں۔ اب ہم بہترین جامعات کے طلبہ کو ملازمت دے رہے ہیں۔ کے۔ الیکٹرک کے پاور پلانٹس گیس پر چلتے ہیں۔ مگر مقامی گیس کی کمی کے سبب ایل این جی پر پلانٹ چلائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بجلی مہنگی پڑتی ہے۔ پیداواری لاگت میں کمی کے ساتھ ہم نے بجلی کی ترسیل و تقسیم نقصانات کو بھی دس فیصد کم کیا ہے۔ ہم نے بجلی کو سستا کرنے کے لیے متبادل توانائی کے منصوبوں کے لیے اظہار دلچسپی طلب کی ہے۔ 40 کمپنیوں نے رجسٹریشن کرائی ہے جس میں سے 12غیر ملکی ہیں۔ آئندہ 7سال میں کے۔ الیکٹرک نے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا ہے۔پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں فی کس بجلی کی کھپت کم ترین ہے۔ پاکستان کا جی ڈی پی کم ہے۔ اگر معیشت 4 فیصد کی شرح سے ترقی کرے تو یہ اضافی طلب استعمال ہوسکتی ہے۔

مزید پڑھیے  ایل پی جی کی قیمت میں 20 روپے فی کلو کمی

وزیر مملکت آئی ٹی اینڈ ٹیکنالوجی شازہ فاطمہ خواجہ نے کہا کہ وزیراعظم کا وژن پاکستان کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنا ہے۔ حکومت نجی شعبے کو سہولت فراہم کرنا چاہتی ہے۔ ٹیکنالوجی حکومت، معیشت اور طرز زندگی کو متاثر کررہی ہے۔ 150 ملین نوجوانوں کے ساتھ، جو ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہیں ڈیجیٹل اقدامات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ نجی شعبے کے ماہرین کو معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنے کے اس سفر میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔

سابق نگران وفاقی وزیر برائے توانائی محمد علی نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی خرید فروخت کی مسابقتی مارکیٹ بنانا ہوگی اور اس کے لیے بہترین کام وہیلنگ ہے جس میں بڑے صارفین اپنی پیداوار سسٹم میں لاسکیں۔ کپیٹو پاور پلانٹس کوفراہم کی جانے والی گیس کو بہتر پاور پلانٹس کو منتقل کیا جاسکتا ہے۔ کپیٹو پاور پلانٹس کی صلاحیت کم ہے۔پاکستان میں بجلی کے آلات زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں جو ایندھن جل رہا ہے وہ بجلی کے شعبے میں جائے گا تو گاڑیاں بجلی پر چلیں گی۔ پاکستان کو توانائی کے شعبے کو ترقی دینے کے لیے پانچ سال درکار ہیں۔ہم اپنی این ٹی ڈی سی کی نجکاری کیوں نہیں کرسکتے ہیں؟ مسائل اور ان کا حل سب کو معلوم ہے۔ اس پر جب عمل شروع کریں گے بہتری خود بہ خود نظر آئے گی۔

سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ پاکستان کو وسیع البنیاد اور مستحکم ترقی درکار ہے۔ ایسی ترقی نہ ہو جس میں چند لوگوں کو فائدہ ہو اور باقی آبادی محروم رہ جائیں۔ ہمیں ترقی کرتے ہوئے فضائی آلودگی کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔گزشتہ 70 سال کی انسانی ترقی کے تجربے سے پتہ چلا ہے کہ مادی سرمائے کے علاوہ سماجی سرمایہ بھی ضروری ہے۔سماجی سرمائے کا مطلب ہے کہ عوام کے مختلف گروہوں اور ریاست کے درمیان اعتماد ہو۔ جاپان میں عوام اور ریاست کے اعتماد کی وجہ سے وکیل کم ہیں اور انجینئرزیادہ ہیں۔

اے سی سی اے کی گلوبل ڈپٹی پریذیڈنٹ اور بانی و سی ای او پلانیٹیو عالیہ ماجد نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کے لیے مقامی ایندھن کا استعمال بڑھانا ہوگا۔ گزشتہ سال 60 فیصد بجلی پٹرولیم مصنوعات سے کی گئی جس کا بڑا حصہ درآمد کیا گیا، جس سے زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ بڑھا۔ بجلی کی متبادل توانائی کی لاگت کم ہوگئی ہے۔ شمسی توانائی 80 فیصد، ہوائی چکیوں کی قیمت 50 فیصد کم ہوگئی ہے۔ سستی بجلی کی بیٹری کی قیمت میں بھی کمی کمی ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان میں تابنے کی کان کنی کا ایک بڑا منصوبہ ہے۔ اس کو بجلی کی ترسیل کے منصوبوں سے منسلک کرکے آگے بڑھانا چاہیے۔

سمٹ سےLayth Al Falaki، سی ای او، GuarantCo لمیٹڈ؛Layth Al Falaki، سی ای او، GuarantCo لمیٹڈ؛حاتم بامطرف، صدر اور سی ای او، پی ٹی سی ایل گروپ؛ Boo Hock KHOO، چیئرمین، انفرازمین بورڈ؛Karen Tsang-Hounsell، ہیڈ آف بزنس ڈویلپمنٹ، انفراکو ایشیا ڈویلپمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ؛فلپ اسکنر، ہیڈ آف مڈل ایسٹ، شمالی افریقا اور پاکستان، GuarantCo and Origination Lead for Nature, Private Infrastructure Development Group (PIDG)؛سجید اسلم، پارٹنر، اسپیکٹرکو ایل ایل سی، USA و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

Back to top button