بسم اللہ الرحمن الرحیم

علاقائی

بزم ہم خیالاں گورنمنٹ گریجویٹ کالج جوہر آباد کی پانچویں نشست کا انعقاد

خوشاب (راجہ نورالہی عاطف سے) بزم ہم خیالاں گورنمنٹ گریجویٹ کالج جوہر آباد کی پانچویں نشست شعبہ تاریخ میں منعقد ہوئی۔
نشست کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ حسب روایت احمد نواز اسسٹنٹ پروفیسر اسلامیات نے تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل کی۔ بعدازاں محمد علی راجہ ایسوسی ایٹ پروفیسر سماجی امور نے تمام حاضرین بزم کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور بالخصوص دو ریٹائرڈ پروفیسرز شیخ اعجاز الحق اورملک احمد شیر کھارا کی آمد پر ان کی پذیرائی کی۔
ادبی نشست میں مہران علی خان، محمد عامر، مستحسن رضا جامی، گل فراز اور محمد علی راجہ نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ ادبی نشست میں محمد عامر کو نہ صرف گورنمنٹ گریجویٹ کالج جوہر آباد میں بطور لیکچرار اردو تعینات ہونے پر مبارکباد دی گئی بلکہ انہیں بزم ہم خیالاں میں ایک اہم اضافہ قرار دیا گیا۔ اس محفل کی دوسری اہم بات مہران علی خان کو اپنی پہلی غزل پیش کرنے پر سراہا گیا اور ان کی بھرپور پزیرائی ہوئی۔
ادبی نشست میں پیش کئے گئے چند اشعار:

چلا ہوں دَشت میں اپنا نشاں مٹانے کو
ہُنر یہ کم تو نہی یار آزمانے کو

تمام عمر تیرے در کی نوکری کر کے
ملا نہ فیض ذرا سا بھی مجھ دیوانے کو

اب اور تجھ سےمراسم بڑھائیں بھی کیونکر
تمہارا رَبط ہی کافی ہے دل جلانے کو

ہر اک طبیب نے لکھ کر مجھے محبت دی
میں جس کے پاس گیا زخمی دل دِکھانے کو

میری سمجھ میں نہ آیا یہ داؤ پیچ کا کھیل
یہ سادہ پن بھی نہ بھایا میرا زمانے کو

کچھ اس طرح سے ہے پیوست وہ مری روح میں۔
کہ خاک ہونا پڑے گا اسے بھلانے کو
(مہران علی خان)

کنیزوں نے بچھا رکھا ہے دام آہستہ آہستہ
کھلیں گے سارے کے سارے غلام آہستہ آہستہ
اُدھر اک شور اٹھتا ہے کہ کیا کوئی تمہارا ہے
سرک آتا ہے ہونٹوں پر وہ نام آہستہ آہستہ

وہ چلتا ہے تو اپنے ساتھ سورج لے کے چلتا ہے
اور اپنی رہ بدل لیتی ہے شام آہستہ آہستہ

وہ آنکھیں دیکھتی تو ہیں مگر اک وقفے وقفے سے
ہماری سمت بھی بڑھتا ہے جام آہستہ آہستہ
جو آنکھیں راہ تکتی ہیں کبھی اس کو بھی دیکھیں گی
بدل جائے گا دنیا کا نظام آہستہ آہستہ
(محمد عامر)

دل چیر دیا وحشتِ باطن کی نمی نے
پھرتے تھے بہت موج میں خود دار سفینے

ہر سمت انا اور ہوس پھیل چکی تھی
محفوظ رکھا مجھ کو ترے اسمِ جلی نے

دل میں ہی بنا کرتی ہے تصویر خزاں کی
دل میں ہی چھپے ہوتے ہیں انمول نگینے
جامی کوئی مشکل ہو چلا آتا ہوں در پر
موڑا نہیں ناکام کبھی باھُو سخی نے
(مستحسن رضا جامی)

گل فراز ۔

دیکھو تو سہی کر کے شروعات کبھی
ممکن ہے کہ ہو جائے وہی بات کبھی

ایسے بھی جوابوں کو لیے پھرتا ہوں
پوچھے نہ گئے جن کے سوالات کبھی

رکھ دیتا ہوں حالت ہی بدل کر اس کی
اک بار جو لگ جائے مرے ہاتھ کبھی

پھل پھول بدن کی تو بہت سیر کروں
کھو جاؤں کہیں دیکھ کے باغات کبھی

ایسی کمی ہے جس کا نہیں کوئی علاج
تو اور نہ کر وقت پہ بہتات کبھی

اور تو بڑی باتیں تجھے آتی ہیں مگر
کر ایک اسی موضوع پہ بھی بات کبھی

میں چاہتا تو اور ہی کچھ تھا لیکن
ہوتا رہا کچھ اور ہی مرے ساتھ کبھی

بے موسمے پھل میں نہیں ہوتی وہ بات
پہلے کیے دیتے یہ عنایات کبھی
(گل فراز)

منزل شوق کیوں نہ سر ہو جائے
تو اگر اپنا ہم سفر ہو جائے

اپنے دل کی کلی بھی کھل اٹھے
گر تمہاری ادھر نظر ہو جائے

تو مری زندگی کا حاصل ہے
یہ فسانہ بھی اک خبر ہو جائے

جس طرف بھی ترے قدم اٹھیں
وہ فقیروں کی رہ گزر ہو جائے

آرزو کی بساط کو تج دے
گر تو چاہے کہ معتبر ہو جائے

چاہتا ہے یہی علی راجا
تیری چاہت میں وہ امر ہو جائے
(محمد علی راجا)

Back to top button