بسم اللہ الرحمن الرحیم

بین الاقوامی

ٹائٹن حادثہ، امریکا اور کینیڈا نے وارننگ نظر انداز کئے جانے کی تحقیقات شروع کردیں

ٹائٹن کے سربراہ کو خبردار کیا گیا تھا کہ بغیر لائسنس کی آبدوز نما کو کمرشل مقاصد کے لیے نہ استعمال کیا جائے۔اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ماہرین نے کئی سال پہلے اسٹاکٹن رش (ٹائٹن کے سربراہ) پر واضح کیا تھا کہ تم کسی کی جان لے کر ہی رہو گے۔جواب میں ٹائٹن کے سربراہ نے کہا تھا کہ ایسی باتیں ان کی تذلیل ہیں، نہ کی جائیں تو بہتر ہے۔

تاہم امریکا اور کینیڈا نے وارننگ نظر انداز کیے جانے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔حادثے میں اسٹاکٹن رش اور پاکستانی کاروباری شخصیت شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد سمیت 5 افراد موت کا شکار ہوئے۔دنیا کو ہلا دینے والے حادثے نے کمپنی کی قسمت پر سوالیہ نشان بنا دیے۔

واضح رہے کہ 1912 کو غرق ہونے والے مسافر بردار سمندری جہاز ٹائی ٹینک کا ملبا دیکھنے کے لیے جانے والی آبدوز ٹائٹن 18 جون کو بحر اوقیانوس میں لاپتا ہو گئی تھی جس کی تلاش 4 روز تک جاری رہی تاہم 22 جون کو امریکی کوسٹ گارڈ حکام نے بتایا کہ آبدوز ٹائٹن تباہ ہوگئی ہے اور اس میں سوار تمام افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

امریکا کے شہر لاس ویگاس کے ایک سرمایہ کار جے بلوم اپنے بیٹے شان کے ساتھ ٹائٹن آبدوز کے ذریعے ٹائی ٹینک کا ملبا دیکھنے جانے والے تھے اور اوشین گیٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو اسٹاکٹن رش نے انہیں رعایتی پیشکش کی کہ وہ ڈھائی لاکھ ڈالر کے بجائے ایک لاکھ ڈالر فی کس دے کر سفر کر لیں۔

مزید پڑھیے  تارکین وطن کی بس کو حادثہ، 17 ہلاک

جے بلوم نے اپنے اور اسٹاکٹن رش کے درمیان واٹس ایپ پیغامات بھی شیئر کیے ہیں، حادثے کا شکار ہونے والی آبدوز میں اسٹاکٹن رش خود بھی جان سے گئے۔

جے بلوم نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا کہ اسٹاکٹن رش نے فروری میں مجھے اور میرے بیٹے سین کو مئی کے مہینے میں ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کے لیے جانے کا کہا لیکن مئی کے مہینے کے دونوں ٹرپ موسم کی خرابی کی وجہ سے ملتوی ہوگئے اور پھر جون میں جانے کا فیصلہ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسٹاکٹن رش سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو ان کا کہنا تھا یہ بات ٹھیک ہے کہ اس میں رسک ہے لیکن ٹائٹن میں سفر کرنا سڑک پار کرنے سے بھی آسان اور محفوظ ہے۔

اسٹاکٹن رش کا یہ بھی کہنا تھا آبدوز کا سفر ہیلی کاپٹر کے سفر اور اسکوبا ڈائیونگ سے بھی زیادہ آسان ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ جانتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں لیکن وہ غلط تھے۔

Back to top button