بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحت

جلد پولیو سے پاک پاکستان کا ہدف حاصل کریں گے، ڈاکٹر شہزاد بیگ

قومی پولیو پروگرام کے فوکل پرسن ڈاکٹر شہزاد بیگ کا کہنا ہے کہ ملک میں گزشتہ ایک سال کے دوران پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا لیکن ماحولیاتی نمونوں میں اب بھی پولیو وائرس کی موجودگی خطرے کی گھنٹی ہے، ملک سے ابھی پولیو وائرس ختم نہیں ہوا ہے۔ایک نجی ٹی وی سے  بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شہزاد بیگ کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں پولیو سے بچاو کے قطرے پلانے سے انکاری والدین کی تعداد 10 لاکھ سے کم ہوکر محض 60 ہزار تک آچکی ہے، اسی طرح مسنگ یا گھروں پر نہ ملنے والے بچوں کی تعداد بھی 15 لاکھ سے کم ہوکر 2 لاکھ تک آچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ وہ بچے ہیں جب ہماری ٹیمیں کسی کے گھر جاتی ہیں تو وہ بچے گھر پر نہیں ملتے، یعنی یا تو وہ دوسرے شہر منتقل ہوچکے ہیں یا علاقہ تبدیل ہوگیا ہے۔ڈاکٹر شہزاد بیگ کے مطابق پنجاب، کے پی اور سندھ سے ڈیڑھ سال سے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے، اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، جنوبی وزیرستان اور بنوں ایسے علاقے ہیں جو ہماری توجہ کا مرکز ہیں، یہاں ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس موجود ہے۔محکمہ صحت سندھ کے حکام کے مطابق کراچی میں ویکسین سے انکاری بچوں کی تعداد 69 فیصد کمی ہوئی ہے، اس وقت انکاری بچوں کی تعداد 33 ہزار ہے جو اس سے پہلے ایک لاکھ 20 ہزار تھی، اندرون سندھ میں انکاری بچوں کی تعداد ایک ہزار ہیں، اس طرح سندھ بھر میں انکاری بچوں کی تعداد 34 ہزار بنتی ہے، سندھ بھر میں مسنگ یا گھروں پر نہ ملنے والے بچوں کی تعداد 60 ہزار ہے، جن میں سے 28 ہزار بچے کراچی سے ہیں۔

مزید پڑھیے  پاکستان میں کورونا سے مزید 24 افراد جان کی بازی ہار گئے

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسلام آباد اور آزاد جموں و کشمیر ایسے مقامات ہیں جہاں 2015 سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، اسی طرح گلگت بلتستان میں 2015 اور 16 میں پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا لیکن 2017 میں پولیو کا ایک کیس رپورٹ ہوا، جس کے بعد وہاں اب تک پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے، پاکستان میں 2015 میں پولیو وائرس کے 54 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جن میں سے پنجاب سے 2، سندھ سے 12، کے پی سے 33، بلوچستان سے 7 کیسز شامل تھے۔ملک بھر میں 2016 میں پولیو کیسز کم ہوکر 20، 2017 میں 8 اور 2018 میں کیسز کی تعداد 12 ہوگئی تھی جبکہ 2019 میں پولیو کیسز کی تعداد اچانک 147 تک جاپہنچی، جس میں پنجاب سے 12، سندھ سے 30، کے پی سے 93 اور بلوچستان سے پولیو وائرس کے 12 کیسز رپورٹ ہوئے، اسی طرح 2020 میں پولیو کیسز کی تعداد تھوڑی سی کم ہوکر 84 ہوگئی، جس میں پنجاب سے 14، سندھ اور کے پی سے 22، 22 اور بلوچستان سے 26 کیسز شامل ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت نے 2018 میں بابر بن عطا کو پولیو پروگرام کا سربراہ بنایا تھا جن کی خراب کارکردگی کی وجہ سے پولیو کیسز میں اضافہ ہوا اور بعد ازاں انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔گزشتہ سال پاکستان میں پولیو وائرس کا صرف ایک کیس رپورٹ ہوا تھا، جنوری 2021 کو بلوچستان کے ضلع قلعہ عبد اللہ میں 28 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔ایمرجنسی آپریشن سینٹر برائے پولیو سندھ کے حکام کے مطابق سندھ میں جولائی 2020 سے اب تک پولیو کا ایک بھی کیس رپورٹ نہیں ہوا اور گٹر کے پانی میں بھی جولائی 2021 سے پولیوکا وائرس نہیں ملا۔اس وقت دنیا میں پاکستان اور افغانستان صرف دو ہی ملک ایسے ہیں جہاں اب تک پولیو وائرس پر قابو نہیں پایا جاسکا، عالمی ادارہ صحت کسی بھی ملک کو اسی وقت پولیو فری ملک قرار دیتا ہے جب وہاں 3 سال تک پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہ ہو۔پاکستان میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک سال کے دوران ملک کے کسی بھی حصے سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ڈاکٹر شہزاد بیگ نے بتایا کہ اب ہماری زیادہ توجہ خیبرپختونخوا کے جنوبی وزیرستان ڈویژن، بنوں ڈویژن اور ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن پر ہوگی، جس کا مقصد وہاں کے ماحول میں موجود پولیو وائرس سے بچوں کو محفوظ رکھنا ہے۔ یہ وہ علاقے تھے جہاں حالات کشیدہ رہے ہیں، ان شا اللہ ہم جلد پولیو سے پاک پاکستان کا ہدف حاصل کریں گے۔

مزید پڑھیے  پولیو ٹیم پر حملہ، حفاظت پر مامور پولیس اہلکار جاں بحق
Back to top button