بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

پاکستان میں کوئی جعلی پائلٹ نہیں ہیں، سلیم مانڈوی والا

سابق وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی جانب سے جعلی پائلٹ لائسنسوں کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ پاکستان میں کوئی جعلی پائلٹ نہیں ہیں۔رپورٹ کے مطابق انہوں نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ہوابازی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کہا کہ میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی جعلی پائلٹ موجود نہیں ہے۔سابق وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے جون 2020 میں پارلیمنٹ میں انکشاف کیا تھا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ملک کے 860 پائلٹس میں سے 260 سے زیادہ کے پاس یا تو جعلی لائسنس ہیں یا انہوں نے دھوکہ دہی سے امتحانات پاس کیے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس میں پی آئی اے کے پائلٹس کے لائسنس منسوخی کے کیسز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا، ذیلی کمیٹی کو وزارت ہوا بازی، سول ایوی ایشن اتھارٹی، پی آئی اے اور ایف آئی اے حکام نے معاملے پر بریفنگ دی۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ 180 پائلٹس کو بحال کر دیا گیا ہے جبکہ کمیٹی باقی 80 پائلٹس کے کیسز کا جائزہ لے رہی ہے کیونکہ ان میں سے کئی پائلٹس کو کسی وجہ کے بغیر مسائل درپیش ہیں۔

اجلاس کے دوران سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ پائلٹ لائسنس امتحانات میں کچھ غیر منصفانہ طرز عمل دیکھا گیا جن میں سی اے اے کے بعض افسران اور ریٹائرڈ پائلٹس ملوث تھے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پائلٹس کے مسائل گزشتہ 3 سال سے موجود ہیں، انہیں اب تک حل ہو جانا چاہیے تھا، اس کی وجہ سے قومی ایئر لائن بھی متاثر ہو رہی ہے۔ایوی ایشن کی قائمہ کمیٹی کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا گیا جس کے بعد ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی، اس کمیٹی کا مقصد الزام تراشی نہیں بلکہ ان مسائل کو تعمیری انداز میں حل کرنے کے لیے سفارشات مرتب کرنا ہے، اس سے نہ صرف ان پائلٹس کو درپیش مسائل دور ہوں گے بلکہ قومی ایئرلائن کی کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی۔ڈی جی سول ایوی ایشن نے کہا کہ 262 پائلٹس کے لائسنس کے حوالے سے کچھ مسائل ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر بھی مسائل پیدا ہوئے، ان پائلٹس کے امتحانات میں مسائل تھے جس کے نتیجے میں انہیں کام سے روک دیا گیا تھا۔

تحقیقات کے بعد 180 پائلٹس کو کلیئر کر دیا گیا جبکہ باقی 82 پائلٹس کو ابھی تک مسائل کا سامنا ہے، کابینہ کی ہدایت کے مطابق 50 لائسنس منسوخ کیے گئے اور 32 کیسز میں 6 ماہ کے لیے مراعات نہ لینے والوں کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔سپریم کورٹ جعلی ڈگری کے حامل پائلٹس کے کیسز دیکھ رہی ہے اور وزارت ہوابازی کو جعلسازی کے تمام کیسز کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت بھی جاری کرچکی ہے۔تحقیقات کے بعد 68 پائلٹس کو ڈسچارج کردیا گیا، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے ہدایت کی کہ ڈسچارج ہونے والوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور اس کی وجوہات بھی بتائی جائیں۔کمیٹی نے جعلی اے ٹی پی ایل لائسنسوں کے شبہ کی بنیاد پر تمام لائسنسوں کی منسوخی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔کنوینر نے سوال کیا کہ جب صرف اے ٹی پی ایل کے لائسنس ہی جعلی پائے گئے تھے تو سی پی ایل کے لائسنس کیوں منسوخ کیے گئے، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے تجویز دی کہ اگر پائلٹس کے امتحانات میں مسائل ہیں تو ان کا دوبارہ امتحان لیا جا سکتا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل سی اے اے نے واضح کیا کہ جن پائلٹس کو جعلی لائسنس کی وجہ سے برطرف کیا گیا تھا، ان کے پاس سیکیورٹی کلیئرنس نہیں تھی جبکہ زیر بحث پائلٹ کے پاس سیکیورٹی کلیئرنس موجود تھی۔انہوں نے کہا کہ 33 پائلٹس کے لائسنس نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے، 33 پائلٹس میں سے 27 کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں، باقی 6 پائلٹس کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے، ایک نظرثانی بورڈ 30 روز کی مدت کے لیے قائم کیا گیا تھا، جو 2 سال تک فعال رہا جس کے دوران پائلٹ اپیل کر سکتے تھے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے تجویز دی کہ اس معاملے کو ایف آئی اے کے سامنے اٹھایا جائے تاکہ اس حوالے سے کوئی طریقہ کار مرتب کیا جائے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 19 کیسز ریویو بورڈ کے سامنے پیش کیے گئے جن میں سے 18 حل کر لیے گئے ہیں، 3 پائلٹس کو ریلیف دیا گیا جبکہ 7 کو جزوی ریلیف ملا۔

Back to top button