بسم اللہ الرحمن الرحیم

سیاست

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 کثرت رائے سے منظور

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نگران حکومت کو اضافی اختیارات دینے سے متعلق سیکشن 230 میں ترمیم کی منظوری کے ساتھ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دوسرے روز بھی جاری رہا جہاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے انتخابی اصلاحات پر گزشتہ روز اٹھائے گئے اعتراضات پر وضاحت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور اتحادیوں کے اعتراضات تسلیم کرلیے۔

انتخابی ایکٹ 2017 کی شق 230 میں ترمیم سے متعلق اعتراضات پر وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ان باتوں پر اتفاق رائے ہوا اس کے بعد یہ پیش کر رہا ہوں، علی ظفر نے کہا کہ سیکشن 230 میں بھی تجویز نہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پوری کوشش کی آئینی طریقہ کار سے نہ نکلیں، اس وقت چند معاہدے ہیں جو فائنل ہوگئے ہیں اور چند فائنل ہونے ہیں، ورلڈ بینک نے سیلاب زدہ علاقوں کے لیے کچھ پیکج دیا ہے، اس پر دستخط ہونا ہے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کو مزید کوئی اختیار نہیں دیا جارہا، یہ صرف اس لیے کیا جا رہا ہے کہ یہ نہ کہا جائے کہ پتا نہیں اختیار ہے یا نہیں ہے، اثاثے بیچنے کی اجازت بالکل نہیں ہوگی۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جو معاہدے ہوئے ہیں ان میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔

وزیر پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے سیکشن 230 سے متعلق ترمیم ایوان میں پیش کیں اور کہا کہ جاری معاشی منصوبوں اور بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کا اختیار نگران حکومت کو ملے گا، جس کی منظوری دی گئی۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے شق وار منظوری کے بعد اجلاس کے اختتامی مرحلے پر الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 پیش کردیا جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے ایوان کی کارروائی پیر 7 اگست دوپہر 12 بجے ملتوی کردی۔

مزید پڑھیے  ہمایوں اختر استحکام پاکستان پارٹی میں شامل، اہم عہدہ بھی مل گیا

اس سے قبل جب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا تو وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے حکومت کی اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے نگران حکومت کو اختیار دینے کے سیکشن 230 پر اٹھائے گئے اعتراضات تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ بل کا نیا مسودہ تیار کرلیا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے اتحادیوں اور اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کو دیکھتے ہوئے نیا مسودہ تیار کر لیا ہے، سیکشن 230 کے علاوہ جتنی شقیں شامل کی گئی ہیں ان پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ سیکشن 230 کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ترمیم کل کی گئی حالانکہ یہ ترمیم 5 روز قبل واٹس ایپ اور ای میل کر دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکشن 230 کی حد تک دوبارہ دیکھا گیا، اس کی نیت صرف جاری معاشی منصوبوں کا معاملہ ہے، جو منصوبے جاری ہیں ان پر ضرورت کے مطابق ایکشن لیا جاسکتا ہے۔

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ آج دوبارہ بحث کرنے کے بعد تقرر اور تبادلے کو واپس لے لیا گیا ہے اور اب نیا مسودہ تمام ارکان کو شیئر کیا جارہا ہے، نوید قمر اس حوالے سے مسودہ سب کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سلیم مانڈوی والا نے جو ترامیم دی ہیں وہ کافی بہتر ہیں، شفاف انتخابات کے حوالے سے گزشتہ تجربے کو دیکھتے ہوئے یہ اصلاحات کی گئیں۔

اس موقع پر اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ مجھے بل کی دیگر شقوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے، آج کے دن تک ہم نے پڑھا تھا کہ ان ممالک کا کیا حال ہوتا ہے جو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے آئی ایم ایف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شرائط رکھی گئیں اور پاکستان کو کہا گیا کہ ان کے پورا ہونے کے بعد معاہدہ ہوسکتا ہے، شرائط پوری ہونے کے باوجود عملے کی سطح پر معاہدہ نہیں ہوا، اس کے بعد وزیر اعظم کی مداخلت پر معاہدہ ہوا۔

مزید پڑھیے  پاکستان پیپلزپارٹی کا 56 واں یوم تاسیس، مرکزی تقریب کوئٹہ میں ہو گی بلاول بھٹو خطاب کرینگے

انہوں نے کہا کہ یہ پہلی دفعہ ہوا لیکن وزیر اعظم نے ملک کے لیے کیا، بین الاقوامی سامراج کے نمائندے سیاسی جماعتوں سے ملے، یہ کہاں ہوتا ہے، آپ کا معاہدہ حکومت پاکستان کے ساتھ تھا، آپ کو یہ اجازت نہیں کہ آپ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملیں۔

رضاربانی کا کہنا تھا کہ یہ ملک کی خود مختاری کے خلاف ہے، آج ہمیں اپنی آئینی اسکیم سے ہٹنا پڑا، پہلے قومی مفاد کا منترا استعمال ہوتا تھا، اب معاشی مفادات اور سلامتی کے مفادات کا منترا استعمال ہوتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر محسن عزیز نے اس موقع پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کورم کی نشاندہی کی، جس پر اسپیکر نے ارکان کی گنتی کا حکم دیا اور گنتی کے بعد ارکان کی مطلوبہ تعداد ایوان میں موجود پائی گئی اور اجلاس جاری رہا۔

وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے انتخابی اصلاحات ترمیمی بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا، جس کی شق وار منظوری دی گئی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی نے الیکشن ایکٹ 2017 کے مجوزہ سیکشن 230 کی مخالفت کی تھی۔

رضا ربانی نے کہا تھا کہ مجھے عام ترامیم پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن سیکشن 230 میں تبدیلی پر اعتراض ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ سیکشن 230 میں ترمہم اس وقت مفادات کا ٹکراؤ ہے کیونکہ نگران سیٹ اپ کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے کئی فیصلے موجود ہیں اور کہا گیا ہے کہ ایک منتخب حکومت کے مقابلے میں ان کا کردار بالکل مختلف ہے۔

مزید پڑھیے  پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کی سینئر نائب صدر سمیرا ملک بھی پارٹی چھوڑ گئیں

ان کا کہنا تھا کہ ان کی مختصر عرصے 60 سے 90 روز کے لیے حکومت کے روز کے معمول کے امور چلانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

رضا ربانی نے کہا تھا کہ حکومت سرد خانے میں نہیں جاتی بلکہ نگران سیٹ اپ کی رفتار سست ہوتی ہے، یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ یہ واضح ہے کہ وہ ایک غیرمنتخب حکومت ہے اور اس سے منتخب حکومت کے سائیکل پر نہیں رکھی جاسکتی ہے۔

انہوں نے ایجنڈے پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں 25 کے قریب تحاریک اور بل ایجنڈے پر موجود ہیں، ان میں سےکسی بھی قانون یا بل کی ترمیم کا مسودہ ارکان کو فراہم نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کے اختیارات میں اضافہ کرنا تابوت پر آخری کیل لگانے کے مترادف ہے۔

پی پی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی میں انتخابی اصلاحات پر سیکشن 230 میں ترمیم کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی اور کہا کہ یہ ترمیم آئین کے خلاف ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا تھا کہ سیکشن 230 میں ترمیم پارلیمانی کمیٹی میں زیر بحث نہیں آئی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کرنا منتخب نمائندوں کا کام ہے اور نگران حکومت کا کام نہیں ہے، نگران سیٹ اپ کو 3 یا 6 ماہ حکمرانی دینے کے لیے کوئی بھی ترمیم آئین کے تصور کے خلاف ہوگی۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی میں بڑی مثبت بات چیت ہوئی تھی لیکن سیکشن 230 پر بات نہیں ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ مجھے توقع تھی صرف ان ترامیم اور شقوں پر بات ہوگی جس پر کمیٹی میں تبادلہ خیال اور فیصلہ ہوا تھا اور پارلیمنٹ میں وہی ترامیم پیش کی جائیں گی لیکن یہ مایوس کن ہے کہ اضافی ترامیم مشکوک انداز میں سامنے آرہی ہیں۔

Back to top button