بسم اللہ الرحمن الرحیم

تجارت

ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، قرضوں کے بوجھ میں 1800 ارب روپے سے زائد کا اضافہ

 ڈالر روپے کو روندتے ہوئے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا، امریکی کرنسی کی قیمت میں آج پھر کاروبار کے آغاز پر بڑا اضافہ ہوا ہے۔کاروباری ہفتے کے چوتھے روز امریکی کرنسی کی قدر میں بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، انٹربینک میں 17 روپے 89 پیسے اضافے کے بعد ڈالر 284 روپے کی سطح پر ٹریڈ کر رہا ہے۔

انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے قرضوں کے بوجھ میں 1800 ارب روپے سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔اوپن مارکیٹ میں بھی امریکی کرنسی کی قیمت میں 9 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر 283 روپے پر پہنچ گیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز کاروبار کے اختتام پر انٹر بینک میں ڈالر 266 روپے 11 پیسے پر بند ہوا تھا۔دوسری جانب معاشی ماہرین ڈالر کی قیمت میں اضافے کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔

ٹاپ لائن سکیورٹیز کے چیف ایگزیکٹو محمد سہیل نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے فنڈنگ ملنے میں تاخیر کی وجہ سے کرنسی مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورتحال جنم لے رہی ہے۔

سیکرٹری جنرل ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ظفر پراچہ نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ موجودہ افغان ٹریڈ ریٹ پر ڈالر کی تجارت کرے، دوسرے لفظوں میں انہوں نے پاکستان سے یہ کہا تھا کہ انٹربینک ریٹ یا اوپن مارکیٹ ریٹ کے بجائے ہمارا اصل ریٹ گرے مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہونا چاہیے، وہی اصل ریٹ ہے کیونکہ اس وقت ڈالر کی دستیابی اور تجارت صرف گرے مارکیٹ میں ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے زرمبادلہ پر پابندیاں لگائیں جس کے نتیجے میں تجارت گرے مارکیٹ میں منتقل ہوگئی، حکومت نے ایکسچینج کمپنیوں پر ڈالر کی خرید و فروخت پر بہت سی پابندیاں عائد کردی ہیں جس کی وجہ سے ڈالر آتا ہے نہ جاتا ہے، گرے مارکیٹ پر حکومت کے کریک ڈاؤن کے باوجود ایسا ہو رہا ہے، ہمیں اپنی پالیسیاں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، کریک ڈاؤن کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ’انجانے میں ہم نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے گرے مارکیٹ کو بہت سپورٹ کیا ہے اور وہ بہت پھل پھول گئی ہے، آئی ایم ایف بھی اسے دیکھ رہا ہے اس لیے انہوں نے کہا ہے کہ اپنا روپے اور ڈالر کا ریٹ اس مقام تک لے آئیں۔

گزشتہ روز کرنسی ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچا کا کہنا تھا کہ پاکستانی روپیہ اور معیشت دوبارہ دباؤ کا شکار ہے، اس کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا تعطل اور معاہدے میں تاخیر ہونا اور نئی شرائط کا سامنے آنا ہے، اس کی وجہ سے انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوا۔

میٹس گلوبل کے ڈائریکٹر سعد بن نصیر نے کہا تھا کہ فروری میں مارکیٹ میں سکون تھا اور روپے کی قدر میں 2.7 فیصد اضافہ ہوا تھا، آئی ایم ایف کے ساتھ جلد معاہدہ ہونے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن معاہدے میں تاخیر اور افغانستان کی اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے 285 سے 290 روپے کے درمیان ہونے کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی ہوئی۔

سعد بن نصیر کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، اس کے ذخائر صرف 3 ارب ڈالر کے قریب ہیں، جو صرف تین ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں، ایسی صورت حال میں ملک کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت ہے، جس سے نہ صرف ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ملیں گے بلکہ دوست ممالک اور دیگر کثیر الجہتی قرض دہندگان کی جانب سے فنڈز ملنے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔

Back to top button