بسم اللہ الرحمن الرحیم

بین الاقوامی

میانمار کی فوج نے خواتین اور بچوں سمیت 30 افراد کو ہلاک کردیا

میانمار کی فوج نے ریاست کایا میں کارروائی کرتے ہوئے خواتین اور بچوں سمیت 30 افراد کو ہلاک کردیا اور لاشوں کو آگ لگادی۔

رپورٹ کے مطابق میڈیا، مقامی افراد اور انسانی حقوق کی تنظمیوں نے بتایا کہ کشیدگی کی شکار ریاست کایا میں بدترین فوج نے خواتین اور بچوں سمیت 30 سے زائد افراد کو نشانہ بنایا۔

کیرنی ہیومن رائٹس گروپ کا کہنا تھا کہ انہیں مقامی طور پر بے گھر(آئی ڈی پیز) کی جھلسی ہوئی لاشیں ملی ہیں، ہلاک افراد میں بزرگ، خواتین اور بچے شامل ہیں، جنہیں میانمار کی حکمران فوج نے ہپروسو قصبے کے علاقے موسو کےقریب نشانہ بنایا۔

انسانی حقوق کی تنظیم نے فیس بک پر بیان میں کہا کہ ‘ہم اس وحشیانہ اور غیرانسانی واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں’۔

سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق میانمار کی فوج نے کہا کہ گاؤں میں موجود مسلح اپوزیشن فورسز کے کئی دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گرد 7 گاڑیوں میں تھے اور فوج کے کہنے کے باوجود وہ نہیں رکے۔

انسانی حقوق کی تنظیم اور مقامی میڈیا کی جانب سے جاری کی گئیں تصاویر میں جھلسی ہوئی لاشیں نظر آرہی ہیں۔

میانمار کی فوجی حکومت کی مخالف کیرینی نیشنل ڈیفنس فورس نے کہا کہ ہلاک افراد ان کے ارکان نہیں ہیں جبکہ مقامی افراد تنازع کی وجہ سے بے گھر ہیں۔

گروپ کے ایک کمانڈر نے بتایا کہ یہ سب دیکھ کر ہمیں دھچکا لگا کہ بچوں، خواتین اور بزرگ سمیت مختلف عمر کے افراد کی لاشیں ہیں۔

ایک شہری نے سیکیورٹی کے باعث شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ آگ لگانے کے واقعے سے باخبر تھے لیکن جائے وقوع پر اس لیے نہیں جاسکے کیونکہ وہاں فائرنگ ہو رہی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ آج صبح میں وہاں گیا تو دیکھا کہ کئی لاشوں کو جلایا گیا تھا اور اس کے علاوہ بچوں اور خواتین کے کپڑے پھیلے ہوئے تھے۔

میانمار کی فوج تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب ایک اور علاقے میں بھی کارروائیوں میں مصروف ہے جہاں راکٹ سرحد کی دوسری جانب تھائی لینڈ میں جاگرا، جس کے نتیجے میں ایک گھر کو نقصان پہنچا۔

خیال رہے کہ میانمار میں رواں برس فروری میں فوج کی جانب سے آنگ سانگ سوچی پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر ان کی سول حکومت کیے جانے کے بعد بدامنی اور کشیدگی جاری ہے۔

عالمی مبصرین نے میانمار کے انتخابات کو شفاف قرار دیا تھا اور فوج کی جانب سےحکومت پر قبضے کے بعد مزاحمت کرنے کے لیے کئی گروپ سامنے آئے تھے۔

Back to top button