بسم اللہ الرحمن الرحیم

جموں و کشمیر

عالمی سطح پر ایوارڈ حاصل کرنے والی ممتاز کشمیری شخصیات

سرینگر(ساوتھ ایشین وائر)

جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر سے تعلق رکھنے والی خاتون فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کو چند روز قبل بین الاقوامی فوٹو جرنلزم ایواڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق فری لانسر فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کی تصویروں کو انٹرنیشنل وومنز میڈیا فانڈیشن کی جیوری نے کافی سراہتے ہوئے ‘انجا نڈرنگھاس ایوارڈ کا حقدار قرار دیا ہے۔

ان تصویروں میں کشمیر کا تنازع اور اس کے مقامی لوگوں بالخصوص خواتین پر پڑنے والے اثرات کی عکاسی کی گئی ہے۔عالمی سطح کے اس اعلی ترین اعزاز سے نوازے جانے پر وادی میں نہ صرف مسرت و شادمانی کی لہر دوڑ گئی بلکہ ہر طرف سے سوشل میڈیا پر اس خاتون صحافی کو مبارک باد پیش کرنے اور ان کی تصویروں کو شیئر کرنے کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کشمیری صحافیوں یا دیگر شعبے سے جڑے افراد نے اپنے کام کے ذریعہ بین الاقوامی سطح پر لوہا منوایا ہے۔ اس سے قبل متعدد افراد کو مختلف شعبوں میں غیر معمولی خدمات سر انجام دینے کے لیے ایواڑ سے نوازا گیا ہے۔القمرآن لائن کے مطابق گزشتہ ماہ وادی سے تعلق رکھنے والے دو فوٹو جرنلسٹس کو فیچر فوٹو گرافی کے زمرے میں سال 2020 کے ‘پلٹزر ایوارڈ’ سے نوازا گیا۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد وادی میں پیدا شدہ انتہائی پر آشوب حالات کی عکس بندی کرنے پر فوٹو جرنلسٹ ڈار یاسین اور مختار خان کو یہ ایوارڈ دیا گیا۔ اس وقت وادی میں نہ صرف سخت ترین کرفیو نافذ تھا بلکہ تمام تر مواصلاتی خدمات پر تاریخ ساز پابندی عائد تھی۔

آئرن لیڈی آف جموں و کشمیر کے نام سے مشہور پروینہ آہنگر ہمت اور حوصلے کی ایک مثال ہیں۔ وہ وادی میں لا پتہ افراد کے والدین کی تنظیم ‘دی ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیئررڈ پرسنزکی بانی چیئرپرسن ہیں۔ Thewire.pk کے مطابق سرینگر میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہونے والی پروینہ آہنگر کا فرزند جاوید احمد 31 برس قبل لاپتہ ہوگیا اور تب سے آج تک وہ اپنے لخت جگر کی بازیابی کے لیے جنگ لڑ رہی ہیں۔پروینہ آہنگر تین دہائیوں سے کشمیر کے طول و عرض میں لاپتہ افراد سے متعلق معلومات کے لیے کام کر رہی ہیں۔ سنہ 2017 میں انسانی حقوق کی تحفظ کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دینے کے لیے ناروے میں رفتو ایوارڈ دیا گیا۔گزشتہ برس ایک بین الاقوامی صحافتی ادارے نے دنیا بھر کی 100 بااثر خواتین کی فہرست میں ان کا نام شامل کیا۔ اس کے علاوہ سنہ 2005 میں پروینہ آہنگر کا نام ان ایک ہزار خواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جنہیں نوبل انعام برائے امن کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔معروف میڈیا چینل سی این این – آئی بی این نے پروینہ کو ایک ایوارڈ کے لیے نامزد کیا تھا، لیکن انہوں نے اس ایوارڈ کو مسترد کر دیا تھا۔ انہیں متعدد بین الاقوامی یونیورسٹیز اور انسانی حقوق کے فورمز پر لیکچر دینے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

پرویز امروز انسانی حقوق کے وکیل ہیں،  1978 میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی۔ انہوں نے انسانی حقوق کے ایک کارکن کی حیثیت سے اپنا سفر تمام تر مشکلات کے باوجود بھی جاری رکھا ہے۔سنہ 2006 میں پرویز امروز کو ‘لوڈووک ٹراریکس’ انسانی حقوق کے بین الاقوامی ایوراڈ سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز سب سے پہلے جنوبی افریقہ کے بلند قامت سیاسی رہنما نیلسن منڈیلا کو 1985 میں حاصل ہوا تھا، اس وقت منڈیلا جیل میں تھے۔ پرویز امروز کو  2017 میں پروینہ آہنگر کے ہمراہ رفتو ایواڑ سے بھی نوازا گیا۔پرویز امروز  1995میں ہوئے ایک جان لیوا حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔ یہ حملہ مبینہ طور پر ایک عسکری تنظیم نے کروایا تھا جس کے بعد غیر رسمی طور پر یہ کہہ کر معافی مانگی گئی کہ حملہ غلط فہمی کی وجہ سے ہوا تھا۔

آغا شاہد علی امریکہ میں مقیم کشمیری نژاد ایک مشہور شاعر تھے، انہوں نے بارہ سال کی عمر میں پہلی نظم لکھی تھی۔ان کے اشعار کشمیر کے حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر کے بارے میں اپنے جذبات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آغا شاہد نے شاعری کے علاوہ فیض احمد فیض کی ادبی تنقید اور ترجمہ شدہ تخلیقات پر بھی متعدد کتابیں لکھیں۔آغا شاہد علی امریکہ کا باوقار ادبی ایوارڈ ‘پشکارٹ پرائز’ حاصل کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں 1996 گگن ہیم فیلوشپ، بریڈ لوف رائٹر کانفرنس فیلوشپ اور نیو یارک فانڈیشن فار آرٹس فیلوشپ سے نوازا جا چکا ہے۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق معروف مصنف، کالم نگار و صحافی مرزا وحید کا نام بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ جنہیں بین الاقوامی سطح پر اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ان کی پہلی ناول ‘دی کولیبوریٹر’ کے لیے انہیں ڈیسمنڈ ایلیٹ ایواڑ سے نوازا گیا۔ انہوں نے اب تک تین ناول ‘دی کولیبوریٹر’، ‘بک آف گولڈ لیوز’ اور ‘ٹل ہر ایوری تھنگ’ لکھی ہیں اور مسلسل بی بی سی، دی گارڈین، الجزیرہ اور نیو یارک ٹائمز کے لیے کالمز لکھتے رہتے ہیں۔ وہ انتہائی شائستہ انداز میں کشمیر کی تصویر کشی کے لیے جانے جاتے ہیں۔

خرم پرویز ممتاز انسانی حقوق کے کارکن ہیں، وہ ایشین فیڈریشن اگینسٹ انویلینٹری ڈس اپئررنسز  کے چیئرپرسن اور جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے پروگرام کوآرڈینیٹر ہیں۔ انہیں 2006 میں ‘ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈ’ سے نوازا گیا اس کے علاوہ وہ 2016 میں ایشیا ڈیموکریسی اور ہیومن رائٹس ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔القمرآن لائن کے مطابق فری لانس رپورٹر احمر خان کو فرانسیسی خبررساں ادارے کے ایوارڈ ‘ایجنسی فرانس-پریس کیٹ ویب پرائز 2019’ سے نوازا گیا۔ انہیں یہ ایواڈ کشمیر کے لاک ڈان کے دوران وادی کی صورتحال کی کوریج کرنے پر دیا گیا۔ اس کے علاوہ حال ہی میں انہیں 2020 ہیومن رائٹس پریس ایواڈ دیا گیا۔ یہ ایوارڈ ان کی ایک شاٹ فلم پر ملا ہے۔ احمر خان ایک آزاد صحافی ہیں اور بین الاقوامی ادارے جیسے نیویارک ٹائمز، دی گارڈین کے لیے لکھتے ہیں۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق یوسف جمیل ایک کشمیری صحافی ہیں، گزشتہ 30 برسوں سے وادی میں صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ فن صحافت اور انگریزی و اردو زبان میں غیر معمولی عبور رکھنے والے یوسف جمیل بی بی سی نیوز، رائٹرز، وائس آف امریکہ، نیویارک ٹائمز، اور بھارتی اخبارات دکن کرانیکل اور ایشین ایج کے لیے لکھتے آ رہے ہیں۔ یوسف جمیل کو 1996 میں صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے والی کمیٹی کی طرف سے انٹرنیشنل پریس فریڈم اعزاز سے نوازا گیا،  2006 میں انہوں نے ساتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن کی طرف سے پہلا بہترین صحافی/ مصنف ایوارڈ حاصل کر لیا اس کے علاوہ انہیں 2019-2020 ‘پن’ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔شہناز کشمیر کے ایک ناول نگار اور ماہر تعلیم ہیں۔ سنہ 2014 میں انہوں نے ہاف مدر کے نام سے پہلی ناول لکھی اور 2016 میں ‘سکیٹیڈ سولز’ لکھی۔ہاف مدر کا ترجمہ متعدد زبانوں میں کیا گیا ہے۔  2018 میں شہناز بشیر کو سوئس آرٹس کونسل رائٹر ریذیڈنسی ایوارڈ سے نوازا گیا۔القمرآن لائن کے مطابق شوکت نندا کشمیر سے تعلق رکھنے والے فیچر فوٹوگرافر ہیں۔ انہوں نے شروع سے ہی کشمیر کے حالات کو اپنے کمیرے میں قید کرکے دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ انہیں فلبرائٹ فیلوشپ اور میگنم ایمرجنسی فنڈ گرانٹ سے نوازا گیا ہے۔ترکی میں رہائش پذیر کشمیر صحافی بابا عمر کو ان کے کام کے اعتراف کے طور پر ‘انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس’ ایوارڈ دیا گیا۔ بابر عمر نے الجزیرہ، تہلکہ اور ٹی آر ٹی کے مصنف اور ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا ہے۔ رفیق مقبول ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے وابستہ ہیں۔ انہیں سنہ 2010 میں ‘فائنلسٹ پلٹزر ایوارڈ فار بریکنگ نیوز فوٹوگرافی’ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق الطاف قادری یورپی پریس فوٹو ایجنسی میں سابق فوٹوگرافر ہیں اور فی الحال ایسوسی ایٹ پریس کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہیں 2013 میں ورلڈ پریس فوٹو مقابلے میں پہلا مقام حاصل ہوا۔

Leave a Reply

Back to top button