بسم اللہ الرحمن الرحیم

جموں و کشمیر

کیا آپ کو کنن پوش پورہ سانحہ یاد ہے؟ عبدالصمد انقلابی

اسلامی تنظیم آزادی جموں کشمیر کے چیئرمین اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر ترین حریت پسند رہنما عبدالصمد انقلابی نے کہا ہے کہ بھارتی فوج کی طرف سے جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں کئی عر صہ پر محیط ہے۔

چیئرمین نے کہا ہے کہ بھارتی فوج کی طرف سے جموں کشمیر کے کپوارہ علاقے کنن پوش پورہ میں 100سے زائد اجتماعی زیادتیوں کے سانحہ کو 33 سال بیت گئے۔

چیئرمین نے کہا ہے کہ عالمی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بھارتی حکومت سے سانحہ کی تحقیقات کا کئی بار مطالبہ کر چکی ہیں لیکن آج تک انسانی تاریخ کے بدترین سانحے کے متاثرین کو انصاف نہ ملنا نام نہاد بھارتی انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔

چیئرمین نے سانحہ کنن پوش پورہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے 33 سال گزرنے کے باوجود واقعہ کی تحقیقات نہ ہونے کو تشویشناک قرار دیا، 22 فروری اور 23 فروری 1991ء کے درمیانی رات کو بھارتی فوج نے ضلع کپواڑہ کے گاؤں کنن پوش پورہ میں 100 سے زائد بے گناہ کشمیری خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی۔ چیئرمین نے کہا ہے کہ 17 مارچ 1991ء کو چیف جسٹس جموں کشمیر کے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے 53 کشمیری خواتین نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے عصمت دری کا اعتراف کیا، 15 سے 21 مارچ 1991ء کے دوران ہونے والے طبی معائنوں میں 32 کشمیری خواتین پر تشدد اور جنسی زیادتی ثابت ہو ئی، 1992ء میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی شائع کردہ رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ کنن پوش پورہ سانحے میں بھارتی فوج کےخلاف اجتماعی زیادتی کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں۔

چیئرمین نے کہا ہے کہ پہلی رپورٹ کو مجسٹریٹ کے آنے کے بعد لکھی گئی، اس میں ان خواتین کی تعداد 23 بتائی گئی لیکن نگہبان حقوق انسانی کا اصرار ہے کہ یہ تعداد 23 سے 100 تک ہوسکتی ہے، بھارتی فوج کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی۔

سینئر حریت پسند رہنما عبدالصمد انقلابی نے کہا ہے کہ جموں کشمیر میں 1991ء کا سال انتہائی کربناک تھا جب مرکزی حکومت نے عسکریت پسندی کے خلاف ایک سخت گیر مہم شروع کی تھی، اس مہم کے دوران، مشتبہ بستیوں میں رات کے دوران محاصرہ کیا جاتا تھا اور مرد و خواتین کو شناختی پریڈ اور گھروں کی تلاشی کے مراحل سے گزارا جاتا تھا۔کپوارہ ضلع کو عسکریت کا دروازہ یا ’گیٹ وے آف انسرجسی‘ کہا جاتا تھا، کنن پوش پورہ میں رات کے دوران محاصرہ اور تلاشی کارروائی بھی اسی عسکریت مخالف مہم کا حصہ تھا۔

چیئرمین نے کہا ہے کہ سرحدی ضلع کپوارہ میں 33 سال قبل23 اور 24 فروری1991ء کی درمیانی رات ایک دور دراز گاؤں کنن پوشپورہ میں فوج کی 4 راجپوتانہ رائفلز اور 68 مونٹین بریگیڈ کے اہلکاروں نے بلالحاظ عمر درجنوں خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی۔

چیئرمین نے کہا ہے کہ کنن پوش پورہ سانحہ ایک تلخ حقیقت ہے جو جموں کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ درج رہے گی، کنن پوشپورہ واقع انتہائی متنازع رہا ہے، پریس کونسل آف انڈیا کے اس وقت کے سربراہ بی جی ورگھیز نے ایک متنازع رپورٹ میں فوج پر لگے الزامات کی تردید کی تھی لیکن کشمیر کے اس وقت کے ڈویڑنل کمشنر وجاہت حبیب اللہ نے خواتین کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں کہا کہ یہ مبالغہ آمیز ہوسکتے ہیں لیکن بعید از حقیقت نہیں ہیں، گزشتہ برس کپوارہ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سید محمد یاسین نے بھی کہا تھا کہ انہوں نے واردات کے بعد جب ہر دو دیہات کا دورہ کیا تو متعدد خواتین نے انہیں بتایا کہ مسلح فوجیوں نے انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔

چیئرمین عبدالصمد انقلابی نے کہا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ”سانحہ کنن پوش پورہ کی غیرجانبدارانہ جانچ کی مانگ“کرتے ہوئے کہاہے کہ جموں کشمیرمیں تعینات بھارتی سیکورٹی اہلکاروں کوحاصل استثنیٰ بلاجوازہے۔

چیٔرمین نے کہا ہے کہ کنن پوشپورہ میں دن کے اوجالے میں اجتماعی جنسی تشدد کی چیخیں اور آہ و فغان آج تک خاموش نہیں ہوئی ہے بلکہ اس سانحہ میں متاثرہ ہوئی خواتین کےلئے آج بھی 23 اور 24 فروری 1991ء کی وہ دردناک رات نہیں بھول پائی ہیں جب فوجی اہلکاروں نے انکی عزت کو تارتار کر دیا تھا۔

چیئرمین نے کہا ہے کہ متاثرہ خواتین کو جب آج بھی ان لمحات کی یاد آتی ہے تو انکے رونگٹے ہی نہیں بلکہ نس نس کھڑے ہو جاتے ہیں اور خشک آنکھیں اشک بار ہوتی ہے۔چیئرمین نے کہا ہے کہ 33 برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک درجنوں خواتین حصول انصاف کی منتظر ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والی ائجنسیاں بھی خاموش نظر آرہی ہیں۔

چیئرمین عبدالصمد انقلابی نے کہا ہے کہ ہرسال ایمنسٹی اینٹرنیشنل سانحہ کنن پوش پورہ کی 33 ویں برسی کے موقعہ پر بھی اپنے جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ خواتین کی آبروریزی جیسے سنگین جرم میں ملوث فوجیوں کیخلاف آج تک کوئی قانونی کارروائی نہ ہونااس بات کاثبوت ہے کہ افسپاکے تحت فوج اور فورسزکوحاصل لامحدوداختیارات اورقانونی کارروائی سے دیاگیااستثنیٰ کس قدر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بناہواہے۔

کنن پوش پورہ واقعہ ایک تلخ یاد ہے جو کشمیر کی تاریخ میں کبھی مسخ نہیں ہو سکتی ہے۔

 

Back to top button