بسم اللہ الرحمن الرحیم

جموں و کشمیر

مودی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب پر صحافیوں کو نشانہ بنا رہی ہے، سیاسی ماہرین و تجزیہ نگار

مودی حکومت صحافیوں کو ہراساں کرنے اور انہیں اپنی لائن پر چلنے پر مجبور کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے

مقبوضہ جموں و کشمیر میں سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ نریندر مودی کی زیر قیادت فسطائی بھارتی حکومت کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں صحافیوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے سرینگر میں اپنے بیانات اور انٹرویوز میں کہا کہ مودی حکومت صحافیوں کو ہراساں کرنے اور انہیں اپنی لائن پر چلنے پر مجبور کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے ا استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر صحافیوں کے لیے آزادانہ طور پر کام کرنے کے حوالے سے ایک بدترین مقام بن چکا ہے اور انہیں اپنے پیشہ وورانہ فرائض کی ادائیگی پر بڑے پیمانے پر ہراساں کیا جاتا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ فرقہ پرست مودی حکومت نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) اور سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی ”ایس آئی اے”جیسی بدنام زمانہ تحقیقاتی ایجنسیوں کو مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے دفاتر اور رہائش گاہوں پر پے درپے چھاپے مارنے کیلئے استعمال کر رہی ہے۔

سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے متعدد صحافیوں کو روزانہ کی بنیاد پر تھانوں میں طلب کرکے پوچھ گچھ کے نام پر ہراساں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آصف سلطان اور فہد شاہ سمیت کئی کشمیری صحافیوں کو کالے قوانین کے تحت غیر قانونی نظربندی کا سامنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سچ بولنے پر کشمیری صحافیو ں کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جا رہے ہیں اور مقبوضہ علاقے میں 5 اگست 2019 کے بعد سے صحافیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں 1989 سے اب تک بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کئی صحافی قتل اور زخمی ہو چکے ہیں۔ مودی حکومت نے آزادی صحافت کے حق سمیت ہر حق چھین لیا ہے لیکن وہ مقبوضہ علاقے میں میڈیا کو دبا کر اپنے جرائم کو ہرگز چھپا نہیں سکتی۔سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں اظہار رائے کی آزادی پر قدغنوں کا نوٹس لے۔

Back to top button