بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

قانون کی عمل داری کی جدوجہد سب سے فوری چیلنج،وزیراعظم

وزیراعظم عمران خان نے احساس پروگرام، صحت کارڈ منصوبہ اور قومی رحمت اللعالمین اتھارٹی (این آر اے) کا قیام پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح کی ریاست بنانے کے لیے اپنی حکومت کے سب سے بڑے اقدامات قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کی عمل داری کی جدوجہد سب سے فوری چیلنج ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ان خیالات کا اظہار مختلف اخبارات کے لیے لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں کیا ہے۔

 رپورٹ کے مطابق ’اسپرٹ آف ریاست مدینہ: ٹرانسفارمنگ پاکستان‘ کے عنوان سے مضمون جو وزیر اعظم آفس کی جانب سے این آر اے اور سماجی فلاحی پروگرامز کے اجرا کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لیے میڈیا کو جاری کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے یہ مضمون، جس کا بیشتر حصہ ان کی مختلف مواقع پر کی گئی تقاریر پر مشتمل ہے، ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت کو غیر مثالی مہنگائی کی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔

اپنے مضمون میں انہوں نے لکھا کہ اپنے نظریات کی روشنی میں ہم نے کچھ بڑے اقدامات کے ساتھ فلاحی ریاست کی طرف سفر کا آغاز کردیا ہے، انتہائی مشکل مالی معاملات کے باوجود ہم نے پیسے کا غیر مثالی حصہ احساس پروگرام جو سماجی تحفظ اور غربت کے خاتمے کےلیے شروع کیا گیا ایسے پروگراموں کے لیے مختص کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایسی ریاست بنانے کی طرف ہمارے کلیدی اقدامات میں سے ایک اہم قدم ہے جو ہمارے شہریوں کی فلاح کا خیال رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو عالمی ہیلتھ کوریج دینے والا صحت سہولت پروگرام بڑی حد تک پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔

یہ صرف کمزور طبقے کو قرض لے کر علاج کراکر غربت میں ڈوبنے سے بچانے والا پروگرام نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کے نجی ہسپتالوں سے منسلک ہونے کی وجہ سے عوام اور نجی شعبے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ صرف حکومت پنجاب نے اس پروگرام کے لیے نے 400 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا احساس اسکالرشپ پروگرام غریب اور کم وسائل رکھنے والے باصلاحیت بچوں کو بہتر تعلیم حاصل کرنے کو یقینی بنائے گا جس سے ان کے بہتر معیار زندگی حاصل کرنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ تمام دوسرے اسکالرشپ پرگرامز سے مل کر اس پروگرام میں 60 لاکھ اسکارشپس دی جائیں گی جس ارب روپے ہے۔

عمران خان نے ایک بار پھر کہا کہ ملک کو درپیش چیلنجز میں سے سب سے اہم چیلنج ملک میں قانون کی عمل داری کے لیے جدوجہد ہے، گزشتہ 75 سالوں کی پاکستان کی تاریخ میں ملک پر اشرافیہ کا قبضہ ہے جہاں طاقتور اور گھٹیا سیاستدان، مافیا کرپٹ نظام سے حاصل کیے گئے پیسے کو استعمال کرکے قانون سے بالاتر رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے افراد، کارٹیلز اور مافیا وہ پیراسائٹس ہیں جو ملک سے وفادار نہیں ہیں اور پاکستان کی اصل صلاحیت کے مطابق ترقی کے لیے ان کو شکست دینا ضروری ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ دنیا کو دیکھیں، باآسانی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ قانون کی پابندی ہے، وہ مشرقی ایشیائی معیشتیں جنہوں نے حالیہ دنوں میں ترقی کی ہے وہاں بھی اس اصول کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے جس کی اچھی مثالیں جاپان، چین اور جنوبی کوریا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جبکہ ان قوموں میں جہاں قانون الٹ دیا گیا وہ غربت اور افراتفری میں ڈوبتی نظر آتی ہیں، کئی مسلم ممالک میں بے شمار وسائل کے باوجود کم ترقی ہے جس کی وجہ قانون کی بالادستی نہ ہونا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں اس کی ایک اور اچھی مثال آج کا بھارت ہے، جہاں دوغلا نظام قانون فوری طور پر غربت اور بےشمار شورشوں کو سامنے لایا جس سے ان کے ملک کی یکجہتی کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

عمران خان نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی نہ ہونے سے اربوں ڈالرز چوری ہو کر بیرون ممالک گئے جس نے ہمارے لوگوں پر اجتماعی غربت تھونپ دی، کئی افریقی ممالک اور لاطینی امریکا میں بھی سیاست اور ترقی کا یہی طریقہ عمل نظر آتا ہے، نام نہاد بنانا ری پبلک وہی ریاستیں ہیں جہاں قانون کی بالادستی نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست مدینہ کا تیسرا اصول لوگوں کی اخلاقی اصلاح تھا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اصول یعنی نیکی کرنا اور برائی سے روکنا تھا۔

Back to top button