بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

پاکستان کا غیر قانونی افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ ’ناقابل قبول‘ ہے، ذبیح اللہ مجاہد

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ پاکستان کا غیر قانونی افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ ’ناقابل قبول‘ ہے اور حکام پر زور دیا کہ پالیسی پر نظرثانی کریں۔خیال رہے کہ گزشتہ روز نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا تھا کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں اور اس کے بعد نہ جانے والوں کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔انہوں نے کہا تھا کہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر غیر ملکی افراد کو ہم نے یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ اس تاریخ تک رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ممالک میں واپس چلے جائیں اور اگر وہ یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو ریاست کے جتنے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں وہ اس بات کا نفاذ یقینی بناتے ہوئے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یکم نومبر سے پہلے تک ان کے پاس وقت ہے کہ وہ یہاں سے چلے جائیں ورنہ اس کے بعد انہیں ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اردو اور انگریزی زبانوں میں ایک بیان میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک ناقابل قبول ہے، اس حوالے سے انہیں اپنے پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے سیکیورٹی مسائل میں افغان مہاجرین کا کوئی ہاتھ نہیں، جب تک مہاجرین اپنی مرضی اور اطمینان سے پاکستان سے نہیں نکلتے، انہیں برداشت سے کام لینا چاہیے۔پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس حوالے سے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

اقوام متحدہ کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 13 لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں اور مزید 8 لاکھ 80 ہزار کو قانونی حیثیت حاصل ہے، تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں 17 لاکھ افغان شہری غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔افغانستان کے ترجمان کی جانب سے تنقید کے علاوہ اس پالیسی کے اعلان پر مختلف حلقوں کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ایکس پر کہا کہ حکومت ایک بار پھر مہاجرین کے ساتھ فٹ بال کھیل رہی ہے، اور کچھ دیگر مقاصد کے لیے جوڑ توڑ کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کا ردعمل تباہ کن ہوگا، سہ فریقی معاہدہ صرف رضاکارانہ واپسی کی اجازت دیتا ہے۔

Back to top button