بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک قومی اسمبلی میں منظور

قومی اسمبلی کے اجلاس میں چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک قومی اسمبلی میں منظور کر لی گئی۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر سربراہی منعقد ہوا جس میں عدلیہ کی جانب سے عمران خان کی ضمانت اور تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کی جانب سے قومی اداروں و املاک کے ساتھ ساتھ حساس تنصیبات پر حملے کی شدید مذمت کی گئی۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ عدلیہ میں ایک گروہ نے سیاست کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ہے، وہ عدل نہیں کررہے، سیاست کررہے ہیں، ان کے فیصلوں کی بنیاد سیاسی حمایت پر رکھی گئی ہے، عدلیہ کی روایات اور آئین میں درج ان کی حدود کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صاف ظاہر ہے کہ چار تین کا ایک فیصلہ آیا ہوا ہے اور اس فیصلے کی خلاف ورزی اور اسے نظرانداز کیا، میں اسے اقلیتی فیصلہ بھی نہیں کہوں گا، اس کی کوئی آئینی وقعت نہیں ہے لیکن فرد واحد اس فیصلے کو تھوپ رہا ہے، مسلط کررہا ہے اور اس کے ذریعے عمران خان کو ریلیف اور ایک فتنے کو ہوا دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ پارلیمنٹ اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرے، آئین و قانون ہمیں جو اختیارات دیتا ہے ان کا استعمال کیا جائے اور اسی عدلیہ نے ایک شخص کے مفادات کے تحفظ کے لیے آئین کے آرٹیکل 63-اے کو ری رائٹ کیا ہے اور اس کے بعد پنجاب میں منتخب حکومت کو اسی بینچ نے گھر بھیج دیا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ پہلے عدالت نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ڈالا گیا ووٹ گنا نہیں جائے اور حمزہ شہباز کے حق میں دیے گئے ووٹ کو گنتی سے نکال دیا اور 15 دن بعد پرویز الٰہی کے حق میں 10 ووٹ گن لیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سیاست دانوں اور اس پارلیمنٹ کے اختلافات رہے ہیں، فوجی حکمرانی سے اختلافات رہے ہیں لیکن آج جب فوج آئین اور قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کررہی ہے تو ہماری تاریخ کے وہ روشن باب جن پر ہمیں فخر ہے، ان یادگاروں کو مسمار کردیا۔

مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ یہ جو لاہور میں بیٹھے ہوئے ہیں، داماد وزیر بنتا ہے تو سرکاری گھر میں پارٹی کرتا ہے تو 34 ججوں کی بیگمات وہاں موجود ہوتی ہیں، میں عدلیہ نہیں کہہ رہا بلکہ اس گروہ کی بات کررہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میرے پاس گواہی ہے کہ رانا ثنااللہ کا ایک پڑوسی لیفٹیننٹ کرنل ہے، اس کے کہنے پر یہ فیصلے کرتے ہیں، میں وہ فیصلے بھی بتا سکتا ہوں جو اس کے کہنے پر کیے گئے، جس بینچ کو پیغام بھجوایا گیا اس بینچ کے ایک جج نے مجھے بتایا کہ ہمیں اپروچ کیا گیا ہے، یہ کیا عدلیہ ہے؟۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے وزیر قانون نے بتایا ہے کہ اس ایوان کے اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو چیف جسٹس کے طرز عمل کا جائزہ لے اور غلط طرز عمل کے ثبوت کے ساتھ آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا جائے تاکہ ایک مثال قائم ہو کہ پاکستان کے آئین، سالمیت اور تحفظ کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جا سکے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ عدلیہ میں حالیہ تمام پیشرفت کا مقصد ستمبر میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بننے سے روکنا ہے۔

اپنے خطاب کے دوران انہوں نے عدلیہ میں یکجہتی پر سوال اٹھاتے ہوئے الزام لگایا کہ سابق اسٹیبلشمنٹ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے زیر اثر آ کر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سینئر جج کے خلاف ریفرنس فائل کیے جانے کے باوجود اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔

وزیر دفاع نے کہا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے کہ چار لاکھ مقدمے زیر التوا ہے، یہ روزانہ فرمائشی پروگرام شروع کر دیتے ہیں اور ان کے چیف جسٹس رہتے ہوئے پاکستان انصاف کے انڈیکس کے نیچے 11 پوائنٹس تنزلی کا شکار ہوا ہے، ان کا بھی حساب ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی باری آئے تو سارے قانون قاعدے پتا نہیں کہاں نازل ہوتے ہیں، انصاف کے انڈیکس پر آپ 11 پوائنٹس تنزلی کا شکار ہوئے ہیں اس کا مطلب ہے کہ انصاف کی تذلیل ہو رہی ہے، انصاف رُل گیا ہے، چار لاکھ سائلوں کو انصاف نہیں مل رہا لیکن یہ اپنے رشتے داروں، ساس وغیرہ کے کہنے پر انصاف کررہے ہیں۔

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ لکھنوی انداز نہ اپنایا، جو زبان وہ بول رہے ہیں یا جو زبان ہمارے ہمسائے میں استعمال کی جا رہی ہے، وہ زبان استعمال کریں گے تو پھر انہیں سمجھ آئے گی، جو زبان ہم استعمال کررہے ہیں وہ ان کو سمجھ نہیں آ رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں جب لوگوں کو اشتعال دلایا گیا تو کیا ہوا، 75سال میں ہمارے دفاعی اداروں کا وہ حال نہیں ہوا جو ایک دن میں عمران خان اور اس کے حواریوں نے کردیا، بڑے اتار چڑھاؤ آئے، یہ وہ جذبہ ہے جس کو کارگل کی پہاڑیوں سے اتارا گیا تو دشمن نے بھی اس کو سلیوٹ کیا، وہ چار دن تک وہاں بے تیغ لڑتا رہا، آج 22-23 سال کے بعد اس کے مجسمے کی توہین کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن ملکوں میں عدل پر سمجھوتہ ہو جائے، انصاف اٹھا جائے ، وہ معاشرے قائم نہیں رہ سکتے، میری آپ سے درخواست ہے کہ عدلیہ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نوٹس لیا جائے۔

اس کے بعد مولانا اسعد الرحمٰن نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کچھ روز قبل تحریک انصاف کے چیئرمین کی گرفتاری ہوئی، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے گرفتاری پر ایکشن لے کر آئی جی اسلام آباد اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو بلایا اور ان سے استفسار کیا کہ گرفتاری قانونی ہے یا غیرقانونی ہے اور بالآخر انہوں نے فیصلہ دیا کہ گرفتاری قانوناً جائز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلے روز سپریم کورٹ نے عمران خان کو بلایا اور اس کے لیے سہولت کاری کا بندوبست کیا، اس گرفتاری سے سپریم کورٹ میں حاضر ہونے تک جب دو دن وہ ملکی املاک اور حساس ترین عمارتوں کو نشانہ بنایا تو قوم کے اندر بھی غم و غصہ تھا کہ کیا کوئی اس حد تک بھی انتقامی سیاست کر سکتا ہے کہ وہ ملک کے دفاعی اداروں کے افسران کے گھروں اور مرکزی دفاتر کو نشانہ بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ قوم اس غصے کے اندر مبتلا تھی کہ سپریم کورٹ نے عمران خان اور تحریک انصاف کے بارے میں اپنی روایات پر عمل کرتے ہوئے تحریک انصاف اور ان کی قیادت کے گھناؤنے فعل کو جواز بخشا کہ سیاست میں تشدد کے واقعات ہو سکتے ہیں، کیا یہ ریلیف تحریک انصاف اور عمران خان کے علاوہ کسی اور پارٹی کو بھی حاصل ہو گا۔

مولانا اسعد نے کہا کہ جب ہم اس ملک کو اپنے گھر سے تعبیر کرتے ہیں تو ہمیں اپنے گھر کی حرمت کا بھی لحاظ ہے، محبت کا بھی لحاظ ہے اس لیے اس ملک کو بھی اپنا گھر سمجھتے ہیں لیکن جس طرح کا جنبدارانہ اور ’عمران دارانہ‘ رویہ سپریم کورٹ نے قائم کیا، اس کی مثال نہیں ملتی، آپ کو یاد ہو گا کہ جب یہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دباؤ کو رد کررہی تھی اور بار بار کہہ رہی تھی کہ سپریم کورٹ آئین ری رائٹ نہیں کر سکتی، معاملہ ثاقب نثار سے خراب ہوا، ملکی معیشت اور سیاست کو تباہ کیا گیا لیکن جب تمام سیاسی قوتوں کو اس بات کا ادراک ہوا کہ یہ شخص پاکستان کی نظریاتی اساس کے لیے بھی خطرہ ہے، پاکستان کی معیشت کے لیے بھی خطرہ ہے اور جب تمام قوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں، کسی دباؤ کو قبول نہیں کیا تو اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے اس کو اقتدار سے الگ کیا اور خود حکومت بھی بنائی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اس وقت بھی یہی کہنا تھا کہ اس کو بین الاقوامی لابیز کے دباؤ پر مسلط کیا گیا ہے، سب سے پہلے اس کے لیے جنرل فیض اور اس کے حواریوں نے جس طرح کردار ادا کیا، ملک پر مسلط کیا، یونین کونسل کے الیکشن نہ جیتنے والوں کو بھی اس پارلیمنٹ کا رکن بنایا، دھاندلی کے ذریعے حکومت دلوائی، عدالت سے سہولت کاری کی گئی، اس وقت کی اپوزیشن کو انتخابات سے روکا، مسلم لیگ(ن) کی قیادت اور دیگر رہنماؤں کو پارلیمنٹ آنے سے روکا گیا اور نااہل کیا گیا، ان جمہوری قوتوں کی قیادت کو روکا گیا جنہوں نے اس ملک کو آئین دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے یہ تین ججز پہلے ہی اپنا لائحہ عمل طے کر چکے ہیں کہ ہم نے عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے اس کی راہ کو کیسے ہموار کرنا ہے، ہم جانتے ہیں کہ جنرل فیض اور ثاقب نثار کی باقیات اس نظام کے اندر موجود ہیں لیکن ہم کوئی غیرآئینی اقدام نہیں کریں گے کیونکہ ہم نے خود ہمیشہ آئین کی پاسداری کے لیے علم بلند کیا ہوتا ہے۔

اس موقع پر قومی اسمبلی میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی تحریک قومی اسمبلی میں منظور کر لی گئی۔

یہ تحریک پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ نے پیش کی جس سے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔

کمیٹی میں محسن نواز رانجھا، خورشید احمد جونیجو، صلاح الدین احمد ایوبی، شہناز بلوچ اور صلاح الدین شامل ہیں اور یہ سپریم کورٹ کے ججوں کے رویوں کا جائزہ لینے کے بعد ریفرنس تیار کرکے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کرے گی۔

دوران اجلاس ملک میں انتشار پھیلانے اور سرکاری و فوجی تنصیبات پر حملوں کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کر لی گئی۔

قرراداد میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے دفاعی اداروں کے خلاف غداری اور بے بنیاد الزامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ مذکورہ سیاسی جماعت اور رہنماؤں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ شہیدوں کی یادگاروں کی بے حرمتی پرشرپسند عناصر کو سزا دی جائے اور شرپسند عناصر کا مستقبل میں قلع قمع کرنے کی قانون سازی کی جائے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ ایوان اپنی بہادر اور جری افواج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور دفاع پاکستان میں بھرپور حمایت اور شانہ بشانہ ساتھ کھڑا رہنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔

قرارداد ایم کیو ایم پاکستان کے رکن اسمبلی صابر قائم خانی نے پیش کی۔

Back to top button