بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

میجر شبیر شریف کا 50واں یوم شہادت آج عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے

پاک فوج کے سپوت اور 1971 کی جنگ میں نشان حیدر حاصل کرنے والے میجر شبیر شریف شہید کا 50 واں یوم شہادت آج عقیدت واحترام سے منایا جا رہا ہے۔

میجر شبیر شریف کے یوم شہادت کے موقع پر میں ملک بھر میں تقریبات منقعد کی جائیں گی، شہید کی قبر پر فاتحہ خوانی بھی کی جائے گی۔

میجر شبیرشریف شہید کے یوم شہادت پر پاک فوج کی جانب سے خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے میجرشبیرشریف شہید کی بہادری اور شہادت کی عظیم قربانی پر خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ میجر شبیر شریف شہید نے71 کی جنگ میں بہادری کے ساتھ جان کی عظیم قربانی دی اور نشان حیدر کے حقدار ٹھہرے ہیں۔

میجر شبیر شریف شہید 28 اپریل 1943 کو ضلع گجرات کے قصبہ کنجاہ میں پیدا ہوئے، انہوں نے لاہور کے سینٹ انتھونی اسکول سے او لیول کا امتحان پاس کیا۔

گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم انہیں پاکستان کی سب سے بڑی فوجی درسگاہ کاکول سے آرمی میں شمولیت کا اجازت نامہ ملا۔

کیڈٹ کے طور پر فوج میں بھرتی ہو جانے کے بعد ان کو ملٹری اکیڈمی کاکول بھیج دیا گیا۔ یہاں سے 1965 میں انہوں نے کمیشن حاصل کیا۔ 1970 میں ان کی شادی ایور شائن پینٹس کے ڈائریکٹر میاں محمد افضل کی صاحب زادی کے ساتھ ہو گئی جن کا نام روبینہ بیگم تھا۔

ان کی بیگم محترمہ روبینہ شریف ہوم اکنامکس میں بی اے پاس تھیں۔ ان سے میجر شبیر شریف کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام میجر صاحب نے تیمور شریف رکھا۔

فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد میجر شبیر شریف شہید نمبر 6 ایف ایف رجمنٹ میں تعینات ہوئے۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید (نشانِ حیدر) کے بعد یہ دوسرے فوجی تھے جنہوں نے پاسنگ آٹ پریڈ کے موقع پر شمشیر اعزاز یعنی سوارڈ آف آنر حاصل کی۔

فوج میں رہتے ہوئے انہوں نے بہت کم عرصے کے دوران مختلف فوجی کورسز پاس کئے جن میں ویپنز کورس، انٹیلیجنس کورس اور پیراشوٹ کورس شامل تھے۔

اگلے کئی برس تک میجر شبیر شریف فوج کے مختلف شعبہ جات میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1965 میں جب بھارت نے پاکستان پر جارحانہ حملہ کیا تو پاک فوج کے جیالوں میں میجر شبیر شریف بھی شامل تھے۔

اس وقت یہ سیکنڈ لیفٹنینٹ کے عہدے پر تھے اور ان کو ایک کمپنی کی کمان دے کر کشمیر کے محاذ پر بھیجا گیا تھا۔ ستمبر 1965 کو پاکستانی فوج کے کچھ دستوں کو بے حد گھمسان کی جنگ لڑنا پڑی۔ یہ جنگ جوڑیاں کے محاذ پر ہوئی۔

دسمبر 1971 کی جنگ میں بھی بھارت نے مغربی محاذ پر بری طرح منہ کی کھائی۔ 3 دسمبر کو جب بھارت نے مغربی پاکستان پر حملہ کیا تو میجر شبیر شریف شہید کو حکم ملا کہ وہ مسلسل پیش قدمی کریں اور متعلقہ محاذ پر دشمن کو واپس اس کی سرحدوں میں دھکیل دیں۔

اس جنگ میں میجر شبیر شریف شہید نے بیری والا اور گورمکھڑا کے محاذ پر وطن کا دفاع کرتے ہوئے اپنے فوجی دستوں کی ایسے کمان سنبھالی کہ ان کی بہادری کی داستانیں آج بھی پاک فوج میں زبان زدِ عام ہیں۔

چھ دسمبر کو دشمن کے خلاف سینہ سپر میجر شبیر شریف دشمن کی جانب سے پھینکے گئے ایک گولے کی زد میں آئے اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔

انتقال سے پہلے شدید زخمی حالت میں انہوں نےساتھیوں کو پیغام دیا کہ دشمن کی شکست قریب ہے، ڈٹے رہو۔

ساتھیوں نے اپنے شدید زخمی کمانڈر کا آخری پیغام سنا اور پوری قوت سے دشمن پر حملہ آور ہوئے اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یوں عظیم قربانیوں کے بعد  گورمکھیڑا کا محاذ فتح کر لیا گیا۔

شہادت کے وقت ان کی عمر28 برس تھی، ان کی ہمت اور بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں سب سے بڑے ملٹری اعزاز نشان حیدر سے نوازا۔

میجر شبیر شریف شہید‘ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کے بھانجے اور پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔

Back to top button