بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

لاہور ہائیکورٹ نے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ دینے کے نئے اصول وضع کر دئیے

ملزم کو جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کا بھرپور موقع دیا جائے، لاہور ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ

لاہور ہائی کورٹ نے جسمانی ریمانڈ کے نئے اصول وضع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم کو جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کا بھرپورموقع دیا جائے۔لاہور ہائیکورٹ نے گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق بڑا فیصلہ کرتے ہوئے نئے اصول وضع کر دئیے ہیں، عدالت نے ملزم منشا بم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دے دیا۔جسٹس علی ضیا باجوہ اور جسٹس شہرام سرورنے منشا بم کے جسمانی ریمانڈ کیخلاف تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس میں ملزم کو 27 ستمبر کو جسمانی ریمانڈ کیلئے دہشتگردی کی عدالت پیش کیا گیا، پولیس ڈائری میں ملزم کی چار روز حوالگی سے متعلق کچھ درج نہیں، اور موجودہ کیس میں ملزم کے خلاف ریکارڈ میں کچھ بھی نہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اے ٹی سی جج نے بغیر حقائق جانے 4 مرتبہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی، بظاہر لگتا ہے کہ اے ٹی سی جج نے بغیر کیس ڈائری دیکھے لاپرواہی میں جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی، ملزم منشا بم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جسمانی ریمانڈ کیلئے ملزم کا کمرہ عدالت میں موجود ہونا ضروری ہے، پیشی کے بغیر جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا۔فیصلے کے مطابق پولیس افسر کسی ملزم کو 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیے بغیر اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، صرف تفتیشی افسر کے بیان کو بنیاد بنا کر کسی ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا۔ مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کرتے وقت اپنی آبزرویشن کو عدالتی فیصلے کا حصہ بنانے کے علاوہ کیس ڈائری اور متعلقہ دستاویزات کا مشاہدہ کریں۔

مزید پڑھیے  عدالت نے تینوں ٹک ٹاکرز بھائی رہا کرنے کا حکم دیدیا

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تفتیشی افسر جسمانی ریمانڈ میں توسیع مانگیں تو دیکھا جائے گزشتہ ریمانڈ پر کیا تفتیش ہوئی، ملزم کو جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کا بھرپور موقع دیا جائے اور بیان ریکارڈ پر لایا جائے، ملزم کے جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت کا مطئمن ہونا ضروری ہے۔ مجسٹریٹ کے فیصلے سے ملزم کی آزادی جڑی ہوتی ہے، شہریوں کے حقوق کا تحفظ عدالتوں کا بنیادی فرض ہے، ملک کی اعلی عدالتوں نے بھی مجسٹریٹ کی جانب سے بغیر تحقیق ریمانڈ دینے کو نا پسند کیا ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل کے مطابق دہشتگری عدالت کے جج کو ریمانڈ کے لیے وجوہات بتانا ضروری نہیں، ڈپٹی پراسکیوٹر کا یہ بیان انتہائی غیر مناسب ہے اور قانون کی غلط تشریح ہے، جسمانی ریمانڈ دیتے وقت ایڈمنسٹریٹریو جج مجسٹریٹ کی طرح ایکٹ کریں گے، ایڈمنسٹریٹریو جج کو ریمانڈ دیتے وقت مناسب وجوہات بتانا ہوں گی۔

Back to top button