بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کے خلاف دائر درخواستوں کی 2 مئی کوسماعت ہو گی

سپریم کورٹ کا آٹھ رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات میں کمی حوالے سے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کے خلاف دائر درخواستوں کی 2 مئی کو دوپہر ساڑھے 12 بجے دوبارہ سماعت شروع کرے گا۔

ہفتہ کو جاری کردہ روسٹر کے مطابق آٹھ رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

تینوں درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت ایڈووکیٹ محمد شفیع منیر، راجا عامر خان، چوہدری غلام حسین اور دیگر نے دائر کی تھیں۔

آئین کا آرٹیکل 184(3) سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کا تعین کرتا ہے اور اسے پاکستان کے شہریوں کے ’بنیادی حقوق میں سے کسی ایک کے نفاذ‘ کے حوالے سے ’عوامی اہمیت‘ کے سوال سے متعلق معاملات میں دائرہ اختیار سنبھالنے کے قابل بناتا ہے۔

سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کے عنوان کے حامل اس بل کا مقصد چیف جسٹس کے دفتر کو انفرادی حیثیت میں از خود نوٹس لینے کے اختیارات سے محروم کرنا ہے۔

اسے ابتدائی طور پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کیا گیا اور صدر کی منظوری کے لیے بھیجا گیا، تاہم صدر نے یہ کہتے ہوئے اسے واپس بھیج دیا تھا کہ مجوزہ قانون ’پارلیمنٹ کی اہلیت سے باہر‘ ہے، اس بل کو بعد میں کچھ ترامیم کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا-

تاہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بل کی منظوری کے 3روز بعد ہی ایک پیشگی اقدام کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق بل 2023 کی صدر مملکت کی جانب سے منظوری کے بعد یا دوسری صورت میں اس کے ایکٹ بننے کی صورت میں یہ مؤثر نہیں ہوگا، نہ ہی کسی بھی طرح سے اس پر عمل کیا جائے گا۔

سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا کہ ایکٹ بادی النظر میں عدلیہ کی آزادی اور اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، اس کے متن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر تا حکم ثانی کسی بھی طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوگا، سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت عدلیہ اور خصوصی طور پر سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کے لیے متفکر ہے۔

عدالت عظمیٰ کے اس پیشگی اقدام کو حکمراں اتحاد کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، وفاقی حکومت اور پاکستان بار کونسل نے بھی 8 رکنی بینچ پر اعتراض اٹھایا اور اس حکم کو ’متنازع اور یکطرفہ‘ قرار دیا۔

حکمران نے مخلوط حکومت کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو مسترد کر دیا تھا اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 19 اپریل کو ایک بار پھر بل کو منظوری دینے سے انکار کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیا تھا جس کے بعد یہ تکنیکی طور پر 21 اپریل کو پارلیمنٹ کا ایکٹ بن گیا تھا۔

تینوں درخواستوں میں استدلال کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کا تصور، تیاری، توثیق اور اسے پاس کرنا بددیانتی پر مبنی عمل ہے لہٰذا وہ سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اسے قانونی اختیار کے بغیر قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیں۔

کیس میں وفاقی حکومت، سیکریٹری قانون کے ساتھ ساتھ وزیراعظم اور صدر کے پرنسپل سیکریٹریز کو نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ جب تک درخواست زیر التوا ہے، اس وقت تک بل کو معطل کیا جائے اور صدر ڈاکٹر عارف علوی کو بل منظور نہ کرنے کی ہدایت دی جائے تاکہ یہ پارلیمنٹ کا ایکٹ نہ بن سکے، ان کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کے تحت سپریم کورٹ کے کام یا اس کے یا اس کے ججوں بشمول چیف جسٹس کے اختیارات میں مداخلت یا ریگولیٹ کرنے کی کوشش کرے۔

درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ آئینی مینڈیٹ کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر آئینی اقدام انتہائی متنازع ہے اور وفاقی حکومت نے آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔

درخواستوں میں کہا گیا کہ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ سوموٹو سمیت آئینی اختیارات کے حوالے سے چیف جسٹس کے دفتر کو پارلیمنٹ کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

درخواست گزاروں کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کی شقوں سے متصادم ہو اور استدلال کیا گیا کہ اگر کسی بھی اپیل کی قانون سازی کے ذریعے اجازت دی جاسکتی ہے تو یہ صرف آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Back to top button