بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

آج پارلیمان میں موجود تمام جماعتیں 10 رکنی کابینہ بھی نہیں بنا سکتیں، شاہد خاقان عباسی

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آج پارلیمان میں موجود تمام جماعتیں 10 رکنی کابینہ بھی نہیں بنا سکتیں اور موجودہ کابینہ میں صلاحیت نہیں کہ ملکی مسائل کو سمجھ سکے اور انہیں حل کر سکے۔

لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس کابینہ میں صلاحیت نہیں کہ ملکی مسائل کو سمجھ سکے اور انہیں حل کر سکے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 برس میں تمام جماعتیں حکومت میں رہی ہیں، کیا وہ مسائل حل کر سکی ہیں، یہ کہنا کافی نہیں کہ مجھے منتخب کردیں پھر دیکھیں میں کیا کرتا ہوں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ سیاست سے ہی پارلیمان بنتا ہے اور اسی پارلیمان سے حکومت بنتی ہے، جو جو حکومت میں جائیں گے وہیں سے کابینہ بنے گی اور وزیراعظم آئے گا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس وقت پارلیمان میں 40 فیصد اراکین وہ لوگ ہیں جن کی سیاسی جماعت کسی کو بھی ان سیٹوں پر لا سکتی ہے، آج یہ 10 رکنی کابینہ نہیں بنا سکتے جو ملکی معاملات کو سمجھ سکتے ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس کا بہت بڑا پس منظر ہے جس کی اہم وجہ الیکشن چوری ہونا ہے جس میں ایسے لوگوں کو لایا گیا جو پارلیمان میں بیٹھنے کی اہلیت نہیں رکھتے، نا ہی ان کو وہاں ہونا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں 24 چیف جسٹس دیکھے ہیں جبکہ یہ نویں آرمی چیف ہیں، وہ تو چلے گئے لیکن ہم یہیں ہیں، پتا نہیں کتنے ڈی جی آئی ایس آئی اور ہر قسم کے عہدے اور ہزاروں بیوروکریٹ اور جرنیل دیکھے ہیں لیکن جب سیاستدان سیاسی نظام سے دور ہوجاتا ہے اور اس کی سیاسی قابلیت ختم ہوجاتی ہے تو پھر ملک نہیں چلتے اور آج ہم اس کیفیت کا شکار ہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ایک سیاستدان میں اگر تین صلاحیتیں ہوں گی تو وہ ملک کے لیے کچھ کر سکے گا، پارلیمان میں جانے کی خواہش ہر کسی کی ہوتی ہے لیکن اس کے لیے آپ کے پاس تعلیم ہونی چاہے، صرف ڈگری نہیں، کیا آپ نے تعلیم حاصل کی ہے یا نہیں، کیا آپ نے زندگی میں کوئی کاروبار، نوکری یا قابلیت حاصل کی یا نہیں اور کیا آپ سیاسی نظام سے گزرے یا نہیں، یہ ممکن نہیں کہ میں آج ایم این اے منتخب ہو جاؤں اور کل وزیر بن جاؤں۔

انہوں نے کہا کہ وہ وقت گزر گیا جب وزیر آتے تھے اور پانچ چھ دستخط کرکے گھر چلے جاتے تھے اور سیکریٹری نظام چلاتے تھے، ہم اس بات کو بھی نہیں پہچان سکے کہ آج دنیا بدل گئی ہے، آج سیکریٹری نظام نہیں چلا سکتا، جب تک سیاسی تنظیم قیادت نہیں دے گی، نظام نہیں چلے گا۔

ان کا کہناتھا کہ درستگی کرنا صرف سیاسی قیادت کا کام نہیں ہے، اس میں دیگر محرکات بھی ہیں جو لوگوں کو جتواتے اور ہراتے ہیں، لوگوں کو نااہل کرتے ہیں اور نظام کو ایسا بنا دیتے ہیں کہ وہاں پر کام کرنے والا شخص مایوس ہوکر نکل جاتا ہے یا ناکام ہوجاتا ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمیں سمجھنا پڑے گا کہ اگر ملک میں حقیقی سیاسی قیادت نہیں ہوگی تو معاملہ آگے نہیں چلے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج تک اسمبلی کے رولز اور بزنس بھی تبدیل نہیں کر سکے، قومی احتساب بیورو (نیب) کی یہ حالت ہے کہ سیکریٹری وزیراعظم کو کہتا ہے کہ میں یہ سمری نہیں بناؤں گا کیونکہ نیب مجھے پکڑ کر لے جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو سیکریٹری وفاق میں نہیں آیا اور خوفزدہ ہے تو نظام کیسے چلائے گا، ہم میں اتنی صلاحیت ہی نہیں کہ ہم رولز اور بزنس تبدیل کر سکیں اور آج بھی کوشش کرتے ہیں کہ سیکریٹری کے ذریعے وزارت کو چلایا جائے لیکن وہ نہیں چلتی، ہزاروں ارب کے فیصلے نظر آتے ہیں لیکن ہوتے نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج پنجاب کی حالت یہ ہے کہ ایک سیکریٹری اوسط 6 ماہ بھی مشکل سے گزارتا ہے، اسی طرح ڈپٹی کمشنر اور کمشنر چار پانچ ماہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ خرابیاں جب تک دور نہیں کریں گے نظام نہیں چل سکتا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج حکومت اس بات کا تعین کرنے میں بھی ناکام ہے کہ حکومت میں ہونے کا اس کا مقصد کیا ہے، ذمہ داری کیا ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں اور مفتاح اسمٰعیل بلاشبہ اس بات کے حق میں ہیں کہ ملک میں نئے صوبے بنائیں، صوبوں کا یہ نظام نہیں چل رہا لیکن یہاں بہت حساسیت ہے جس کا ہمیں احساس ہے، ہم نے کالا باغ ڈیم بھی نہیں بنایا آج سب بھگت رہے ہیں۔

رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رکھ لیں کہ یہ نظام کچھ نہیں کر سکتا، ابھی 84 ارب روپے کی لاگت سے آٹے کی تقسیم ہوئی ہے، میں معذرت سے کہوں گا کہ اس میں 20 ارب سے زائد کی چوری ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا کام انصاف دینا اور آئین کی تشریح کرنا ہے، آپ آئین کو تبدیل نہیں کر سکتے، آپ اس ادارے سے نہیں لڑ سکتے جو آپ کا خالق ہے، آئین اسی پارلیمان نے بنایا ہوا ہے، سپریم کورٹ کو جو زندگی ملی ہے وہ اسی آئین نے دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں لیکن اس کو اپنی ساکھ کو خود برقرار رکھنا ہے۔

Back to top button