بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

عمران خان کا متنازع بیان، سینیٹ میں حکومت ارکان کی سخت تنقید، واپس لینے کا مطالبہ

سینیٹ کے اجلاس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے متنازع بیان پر حکومتی اراکین کی جانب سے سخت تنقید کی گئی۔

ایوانِ بالا کا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا جس میں قائد ایوان اعظم نذیر تاررڑ نے بات کرتے ہوئے کہ کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کل ارشادات فرمائے، ان کے بیان سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہے۔

خیال رہےکہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گزشتہ روز ایک انٹرویو دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر درست فیصلے نہ کیے گئے تو فوج تباہ اور ملک 3 ٹکڑے ہوجائے گا۔

مذکورہ بیان پر حکومتی اراکین کی جانب سے سخت تنقید کی گئی اور سینیٹ کے اجلاس میں بھی ان کے اس بیان کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں، پاکستان کے سب سے بڑے دفتر میں رہنے والے شخص کے منہ سے یہ بات سازش کے سوا نہیں نکل سکتی۔

سینیٹر نے مزید کہا کہ یہ پاکستان کی سالمیت کا معاملہ ہے، اس پر ہم نے تحریک التوا جمع کرائے ہے اور سینیٹرز اس معاملے پر بات کرنا چاہتے ہیں،سابق وزیر اعظم نے جو گفتگو کا انداز اختیار کر رکھا ہے وہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ عمران خان کا بیان خطرناک ہے، اقتدار جانے کے بعد وہ ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں، سب سے پہلے پاکستان ہے سیاست اس کے بعد آتی ہے، حکومت بدلنے سے ریاست پاکستان کو فرق نہیں پڑے گا۔

بعدازاں ایوان میں بات کرتے ہوئے سینیٹر آصف کرمانی نے کہا کہ میرا شعبہ ڈاکٹری کا ہے اس لیے بتاسکتا ہوں کہ عمران خان کو بائی پولر ڈس آرڈر ہے، نفسیات میں ایسے مریض کو دماغ پر بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں۔

آصف کرمانی کی تقریر پر اپوزیشن نے ایوان میں سخت احتجاج کیا۔

یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ میں بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی اپنی زندگی میں ایسا نہیں سنا حالانکہ سال 58 میں جب مشرقی اور مغربی پاکستان ساتھ تھا، اس وقت کے صدر ایوب خان نے ایک جنبش قلم سے تمام رہنماؤں کو ایبڈو (نااہل) کردیا لیکن کسی ایک رہنما نے ملک کے خلاف بات نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو میں نے اپنے دورِ حکومت میں کابینہ سے صدر کو سپریم کورٹ ریفرنس بھیجنے کی تجویز دی کہ اس سزا کو عدالتی قتل قرار دیا جائے جس کا ابھی تک فیصلہ نہیں آیا لیکن ہم نے کوئی بات نہیں کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہید بینظیر بھٹو اپنے بچوں کو لے کر بغیر پروٹوکول اپنے شوہر سے ملنے جیل جاتی تھیں اور انہوں نے عدلیہ اور منتخب اداروں کا احترام کیا، اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بھی انہوں نے کوئی بات نہیں کی، ہم بھی بات کرتے ہیں لیکن غیر پارلیمانی اور تضحیک آمیز زبان استعمال نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت اعلیٰ عدلیہ اور مسلح افواج کے خلاف بات کرنا نااہلی تک پہنچا سکتی ہے۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں بطور وزیراعظم سعودی عرب سے واپس پہنچا تو مجھے ایئرپورٹ پر ہی ایوانِ صدر جانے کا کہا گیا جہاں پہنچ کر مجھے معلوم ہوا کہ میرے خلاف نااہلی کا فیصلہ آیا ہے جس کا لائحہ عمل تشکیل دینے کے لیے سی ای سی کا اجلاس بلایا گیا تھا۔

جہاں میں نے ایک قرارداد پیش کی کہ تمام اراکین صدر مملکت کو اختیارات دے دیں کہ وہ نئے وزیراعظم کا انتخاب کریں حالانکہ اس وقت اپیل کا حق موجود تھا اور میں ایوانِ صدر سے اپنی گاڑی سے جھنڈا اتروا کر رخصت ہوا اور اگلے ہی روز وزیراعظم ہاؤس خالی کردیا۔

رہنما پیپلز پارٹی نےکہا کہ اس کے بعد راجا پرویز اشرف کا انتخاب ہوا اور میں نے ان کی حلف برداری میں شرکت کی یہ ہماری پارلیمانی روایات ہیں اس کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی تو انہیں بھی نااہل کردیا گیا لیکن حکومت نے 5 سال پورے کیے۔

یوسف رضا گیلانی نے عمران خان کے حوالے سے کہا کہ ہماری خواہش تھی کہ آپ بھی 5 سال پورے کرتے لیکن تحریک عدم اعتماد ایک مکمل جمہوری طریقہ کار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 85 کے غیر جماعتی انتخاب میں حصہ نہ لے کر ایک غلطی کی تھی اور وہی غلطی آج آپ نے کی، بینظیر بھٹو نے مجھے کہا تھا کہ کبھی پارلیمانی فورم چھوڑنے کی غلطی نہ کرنا۔

یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ بحیثیت ایک پاکستانی کہ ملک 3 حصوں میں تقسیم ہوجائے گا، نہیں کہنا چاہیے تھا اور آپ کے دشمن بھی تو یہی کہتے ہوں گے کہ فوج تباہ ہوجائے گی، یہ کہنا کہ ملک دیوالیہ ہوجائے گا اور ایٹی اثاثے نہیں رہیں گے، ہم اس بیان کی مذمت کرتے ہیں۔

سینیٹر کا کہنا تھا کہ یہ بیان کوئی اور دیتا تو شاید دکھ نہ ہوتا لیکن سابق وزیراعظم اور ایک سیاسی جماعت کے چیئرمین کی جانب سے ایسا بیان آنا ملک کے لیے خطرناک ہے جسے ہر ایک کو مذمت کرنا چاہیے۔

ساتھ ہی انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی سے مطالبہ کیا کہ اپنے الفاظ واپس لیں، یہ ملک کے لیے اچھا نہیں ہے، ملک ہے تو سیاست ہے، ملک ہے تو آپ دوبارہ منتخب ہوکر آسکتے ہیں خدانخواستہ ملک نہ ہو تو آپ کس کی سیاست کریں گے اور ملک سے محب وطن ہونا ایک رہنما ہونے کی سب سے بڑی نشانی ہے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کس کیفیت سے گزرہے ہیں لیکن ماضی میں بھی بہت کچھ ہوا ہے یہاں ایک انتہائی مقبول رہنما پھانسی چڑھا دیا گیا، اس وقت کسی نہیں کہا کہ فوج تباہ ہوجائے گی، پاکستان کے ٹکڑے ہوجائیں گے بلکہ صبر و تحمل سے سیاست کا سفر جاری رکھا اور جب وہ حکومت ختم ہوئی تو بھٹو کی بیٹی ہی وزیراعظم بنی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد جب بینظیر بھٹو سرِ عام قتل ہوئیں تو پیپلز پارٹی نے یہ نہیں کہا کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا یا تین ٹکڑے ہوجائے گا اور اگر کوئی نعرے لگا تو وہ آصف زرداری کا تھا کہ ‘پاکستان کھپے’۔

انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہاں وزرائے اعظم کو ایوانِ وزیراعظم سے گھسیٹ کر نکالا گیا لیکن عمران خان کی عزت و آبرو پر کوئی آنچ نہیں آئی وہ بڑے آرام سے ایک آئینی راستے کے ذریعے نکلے اور ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر بنی گالہ چلے گئے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہاں وزیراعظم کو گھسیٹ کر نکالا گیا، ہتھکڑیاں لگائی گئیں، کالی شیشوں والی وین میں بٹھا گیا اور 3 مہینوں تک معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں ہیں لیکن انہوں نے نہیں کہا کہ پاکستان ٹوٹ جائے گا یا فوج تباہ ہوجائے گی۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ افواجِ پاکستان کے سیاسی کردار سے مجھے، میری جماعت اور ہر جمہوری شخص کو اختلاف ہے اور ہونا چاہیے انہوں نے ایک حلف اٹھایا ہے اس کی پاسداری کرے، ان کا کام یہ نہیں کہ سیاسی جوڑ توڑ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب افواج پاکستان نے 4 سال کے عرصے میں یہ سبق سیکھ لیا ہے اور اگر وہ اب اپنے کردار میں واپس چلے گئے ہیں تو ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اقتدار آنی جانی چیز ہے، ملک کے بارے میں ایسے الفاظ نہیں نکلنے چاہیے جو بددعا یا بری خواہش کے زمرے میں آتے ہیں۔

Back to top button