بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

متوسط آمدنی والے ممالک کے قرض معطل کردیے جائیں۔ منیر اکرم

متوسط آمدنی والے ممالک میں70 فیصد غریب عوام  رہائش پذیر ہیں

پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی تجویز کی حمایت کردی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے معاشرتی اور معاشی اثرات سے نمٹنے کے لیے متوسط آمدنی والے ممالک کے قرض معطل کردیے جائیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے جنرل اسمبلی میں ایک اعلی سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وبائی مرض کروناسے متعدد خطرات اور عدم مساوات سامنے آئے ہیں جو ممالک کے اس متنوع گروہ میں پہلے سے موجود ہیں، ان میں سے بہت سے وبائی مرض سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔منیر اکرم جو اقوام متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسل (ای سی او ایس او سی) کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ ‘یہ اہم ہے کہ ہم مراعات یافتہ وسائل اور مالی اعانت تک رسائی میں متوسط آمدنی والے ممالک کی کمزوریوں کو تسلیم کریں’۔ انہوں نے متوسط آمدنی والے ممالک کو درپیش اہم مسائل میں ‘قرضے، عالمی معاشی ناہمواریوں اور ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات کے اثرات’ کی نشاندہی کی۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے ‘متوسط آمدنی والے ممالک کے قرضوں کو 2022 میں معطل کرنے’ کے بارے میں اپنی تجویز کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان میں سے بہت سے لوگ وبائی بیماری سے پہلے ہی سے پہاڑ جتنے قرضوں سے نمٹ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ‘اگرچہ قرضوں کے بحران کے بارے میں عالمی سطح پر ردعمل کم آمدنی والے ممالک کی حمایت کرنے کی درست کوشش کر رہا ہے تاہم متوسط آمدنی والے ممالک کو پیچھے نہیں چھوڑنا چاہیے’۔اقوام متحدہ کے سربراہ، منیر اکرم اور دیگر عالمی رہنماں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک اعلی سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔اس اجلاس جس میں متوسط آمدنی والے ممالک کی مدد کے لیے مختلف تجاویز کا جائزہ لیا گیا۔متوسط آمدنی والے ممالک میں عالمی سطح پر غریب عوام میں سے 70 فیصد رہائش پذیر ہیں۔جنوبی ایشیا کے تین بڑی ممالک بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش بھی اس کیٹیگری میں شامل ہیں۔پاکستانی سفیر منیر اکرم نے کہا کہ ‘وبائی مرض سے متعدد خطرات اور عدم مساوات سامنے آئے ہیں جو ممالک کے اس متنوع گروہ میں پہلے سے موجود ہیں، ان میں سے بہت سے وبائی مرض سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں’۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ متوسط آمدنی والے گروپ میں ایک ارب سے زیادہ آبادی والا بھارت، اور 20 ہزار سے کم آبادی والا ملک پلا، دونوں شامل ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا کہ آبادی کی تعداد کے علاوہ یہ ممالک معاشی سرگرمیوں، جغرافیہ اور فی کس آمدنی کی سطح میں بھی مختلف ہیں جس میں سالانہ ایک ہزار سے لے کر 12 ہزار ڈالر تک ہوتا ہے۔2020 کی دوسری سہ ماہی میں عالمی سطح پر کام کے اوقات کے نقصانات کا تخمینہ 14 فیصد لگایا گیا ہے۔نچلے درجے کے متوسط آمدنی والے ممالک میں 16.1 فیصد کی کمی ہوگی، توقع ہے کہ 2020 میں ترسیلات درمیانی آمدنی والے ممالک کو کم ملیں گی۔ورلڈ بینک کا تخمینہ ہے کہ 2020 کے آخر میں کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں 27 کروڑ افراد کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

Back to top button