بسم اللہ الرحمن الرحیم

حادثات و جرائم

پنجاب بھر میں پتنگ بازوں اور پتنگوں کے کاروبار سے منسلک افراد کیخلاف کریک ڈاؤن تیز

 وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے حکم کے بعد لاہور سمیت پنجاب بھر میں پتنگ بازوں اور پتنگوں کے کاروبار سے منسلک افراد کیخلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا گیا۔تفصیلات کے مطابق پولیس نے عارف والا کے علاقے 59 ای بی میں کارروائی کر کے پتنگوں کیلئے ڈور بنانی والی فیکٹری پکڑ لی، فیکٹری سے بڑی تعداد میں ڈوریں اور کیمیکل برآمد کر کے مالک کو گرفتار کر لیا، ملزم کی شناخت اسد اللہ کے نام سے ہوئی جو لاہور کا رہائشی ہے۔

ڈی پی او طارق ولایت کا کہنا ہے کہ انسانی جانوں سے کھیلنے والے پتنگ فروش اور پتنگ باز کسی رعایت کے مستحق نہیں، ملزم کیخلاف مقدمہ درج کر کے حوالات میں بند کر دیا۔علاوہ ازیں اوکاڑہ، بہاولنگر اور چنیوٹ میں بھی پتنگ بازوں کیخلاف پولیس نے بھرپور کارروائیاں کیں اس دوران پتنگ بازی اور فروشی میں ملوث 225 افراد کو حراست میں لے لیا گیا، ملزموں سے سینکڑوں کی تعداد میں پتنگیں اور کیمیکل ڈور برآمد کر کے مقدمات درج کر لیے گئے۔

دوسری جانب فیصل آباد میں دھاتی ڈور سے نوجوان کی ہلاکت کے معاملے پر سی پی او محمد علی ضیاء نے دو اعلیٰ سطح کی ٹیمیں تشکیل دے دیں، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں ٹیموں نے ملزموں کی تلاش شروع کر دی۔سی سی پی او فیصل آباد کا کہنا ہے ملزموں کی گرفتاری کیلئے تکنیکی وسائل بروئے کار لائے جائیں گے، سی سی ٹی وی فوٹیجز اور ذرائع استعمال کر کے ملزموں کی تلاش کی جائے گی، واضح رہے وزیر اعلیٰ نے ملزموں کی گرفتاری کیلئے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دے رکھا ہے۔

گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت امن و امان کے حوالے سے خصوصی اجلاس ہوا جس میں آئی جی پنجاب عثمان انور سمیت دیگر اعلیٰ حکام شریک تھے، اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے دھاتی ڈور بنانے، بیچنے اور خریدنے والوں کیخلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا۔وزیر اعلیٰ مریم نواز نے پتنگ بازی کے پے درپے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائیں، پتنگ کے تار سے کرنٹ لگنے کے باعث جاں بحق ہونے والے بچے کی وڈیو دیکھ کر دل کانپ گیا، معصوم بچے کی جان جانے سے والدین کی دنیا تباہ ہو گئی۔

انہوں نے مزید کہا ہے کہ پتنگ بازی کے سدباب کیلئے قوانین موجود ہیں مگر پھر بھی لوگ جان سے جا رہے ہیں، قانون پر عمل درآمد کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے، کیس رجسٹر کرنا کافی نہیں، ملزم کو سزا ہونی چاہیے۔

Back to top button