بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

پاکستانی میڈیا انڈسٹری کو “صنفی ایمرجنسی” کا سامنا: ویمن جرنلسٹ ایسوسی ایشن آف پاکستان، فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ

 ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان (وجہ) اور فریڈم نیٹ ورک کے توسط سے کرائے جانے والے نیوز اداروں کے جینڈر آڈٹ کے مطابق نیوز رومز میں خواتین صحافیوں کی کم نمائندگی اور صنفی حساس پالیسیوں کے فقدان نے پاکستانی میڈیا انڈسٹری کو صنفی ایمرجنسی کا شکار کر دیا ہے۔آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے سلسلے میں “غیر مساوی نیوز رومز: پاکستانی میڈیا تنظیموں کا ایک جینڈر آڈٹ” کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ اسلام آباد میں 15 نیوز اداروں کے سروے پر مبنی ہے جس میں ان اداروں میں خواتین کی نمائندگی، تنظیمی پالیسیاں، ہراساں کرنے کے خلاف اقدامات، کام کے حالات اور اجرت کا ڈیٹا حاصل کیا گیا تھا۔ آڈٹ میں شامل نیوز اداروں میں چھ ٹی وی چینلز، چار اخبارات، تین نیوز ایجنسیاں اور دو نیوز ویب سائٹس ہیں۔
آڈٹ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ نیوز اداروں میں خواتین صحافیوں کا اوسط حصہ صرف 11 فیصد ہے۔ خبر رساں اداروں کی اکثریت میں کوئی خاتون صحافی قیادت کے عہدے پر نہیں ہے۔ 15 میں سے صرف دو میڈیا ہاؤسز میں ہراسگی کے واقعات کی انکوائری کمیٹی موجود ہے حالانکہ وفاقی قانون کے مطابق یہ ہر ادارے کے لیے لازمی ہے۔ زیادہ تر میڈیا ادارے وفاقی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ خواتین ملازمین کو زچگی کی چھٹی بھی آفر نہیں کرتے ہیں۔


جینڈر آڈٹ رپورٹ کے جائزے سے پتا چلا ہے کہ مجموعی طور پر 15 نیوز اداروں میں سے تقریباً پچہتر فیصد جینڈر بلائنڈ ہیں، یعنی ان کی تنظیمی پالیسیاں اور طرز عمل صنف پر مبنی ان مخصوص مسائل پر توجہ نہیں دیتی جو مردوں، عورتوں اور دیگر صنفی اقلیتوں کو مختلف انداز میں متاثر کر سکتے ہیں۔وجہ کی بانی اور کنوینر فوزیہ کلثوم رانا نے کہا کہ جینڈر آڈٹ کے نتائج میڈیا مینیجرز کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ہاؤسز میں مردوں کی بالادستی والی پالیسیاں اور طرز عمل خواتین صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لیے اضافی صنفی چیلنجز پیدا کرتے ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کو جینڈر آڈٹ کے نتائج کی روشنی میں اپنے داخلی نظام کا جائزہ لینا چاہیے اور خواتین کے لیے کام کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیے۔

مزید پڑھیے  قوتوں نے ہاتھ ہٹایا تو بلدیاتی انتخابات میں انجام سب نے دیکھ لیا،مولانا فضل الرحمان

وجہ کی مشیر اور نیشنل پریس کلب کی نائب صدر مائرہ عمران نے کہا کہ میڈیا اداروں میں صنفی تنوع کی خراب حالت صحافت کے معیار کو بھی متاثر کرتی ہے اور خواتین کیلئے معلومات تک رسائی کو بھی محدود کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیوز رومز میں خواتین کی تعداد کم ہو تو میڈیا کے مواد میں قدرتی طور پر خواتین کے نقطہ نظر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا تنظیموں کو کام کی جگہ پر صنفی مساوات کو متعارف کرانا چاہیے بشمول لیڈرشپ کے عہدوں پر اور خبروں میں صنفی حساسیت کا خیال رکھنا چاہیے۔
فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے کہا کہ سول سوسائٹی کو صنفی حساسیت سے متعلق اصلاحات کو نافذ کرنے کے لیے میڈیا کے شعبے کی مدد کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خبر رساں اداروں کو تنظیمی کلچر میں بامعنی تبدیلی کے لیے صنفی مساوات کو بنیادی قدر کے طور پر اپنانے کی ضرورت ہے۔


جینڈر آڈٹ سے پتہ چلتا ہے کہ صنفی ایمرجنسی کی صورتحال خواتین کی صحافت جاری رکھنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، کام کی جگہ پر ان کے قانونی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے اور میڈیا مواد کے صنفی تنوع کو متاثر کرتی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جس کیلئے آڈٹ نے نیوز اداروں، میڈیا مینیجرز، سول سوسائٹی، صحافی یونینز اور پالیسی سازوں کے لیے سفارشات پیش کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق خبر رساں اداروں کو ملازمتوں، ترقی اور کام کی جگہ کے طرز عمل کے لیے صنفی مساوات کی حکمت عملی استعمال کرنی چاہیے۔ سول سوسائٹی تنظیموں کو صحافیوں اور نیوز رومز کے لیے صنفی تربیت اور آگاہی کا انتظام کرنا چاہیے۔ صحافی یونینوں کو پالیسیز میں شفافیت اور صنفی تحفظ کے قوانین کی خلاف ورزی پر پبلشرز کے خلاف قانونی چارا جوئی کرنی چاہئیے۔ جینڈر آڈٹ کے مطابق پالیسی سازوں کو کام کی جگہ پر جنسی ہراسگی اور خواتین میڈیا ورکرز کو درپیش حفاظتی خطرات کا نوٹس لینا چاہیے۔

مزید پڑھیے  ان لوگوں کی طرح نہیں جو 5سیٹوں پر وزارت اعلیٰ کیلئے بلیک میل کریں، شیخ رشید
Back to top button