بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

عمران خان کو جیل ٹرائل کے خلاف خصوصی عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ہدایت کی ہے کہ وہ سائفر کیس میں اپنے جیل ٹرائل کے خلاف خصوصی عدالت سے رجوع کریں۔سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل منتقل کرنے کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ سنایا۔فیصلے میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جیل ٹرائل سیکیورٹی کے مدنظر چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے، بظاہر جیل ٹرائل کے معاملے پر کوئی بد نیتی نظر نہیں آئی۔

عدالت عالیہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی خود اپنی سکیورٹی کے حوالے متعدد بار خدشات کا اظہار کرچکے، چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل ٹرائل پر تحفظات ہوں تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔واضح رہے کہ 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا جب کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اسلام آباد میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کو 30 اگست تک جیل میں ہی قید رکھنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اگلے روز یعنی 30 اگست کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم کے جوڈیشل ریمانڈ میں 13 ستمبر تک توسیع کردی تھی جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج اور کیس کی اٹک منتقلی کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی کیس میں ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔

مزید پڑھیے  سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی آڈیو ٹیپ پر مریم نے کیا کہا؟

چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکریٹری قانون، سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، آئی جی، ڈی جی ایف آئی اے، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اور سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل کو درخواست میں فریق بنایا ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے وفاقی وزارت قانون کی جانب سے عدالت اٹک جیل منتقل کرنے کا نوٹی فکیشن چیلنج کیا تھا اور درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ عدالت اٹک جیل میں منتقل کرنے کا نوٹی فکیشن غیر قانونی ہے لہٰذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔انہوں نے انسداد دہشت گردی عدالت نمبر ون کے جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا اختیار سماعت بھی چیلنج کیا اور کہا تھا کہ انسداد دہشت گری عدالت ون کے جج اس معاملے میں مطلوبہ اہلیت کے بنیادی معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔

Back to top button