بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

توہین پارلیمنٹ کا بل قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی منظور

توہین پارلیمنٹ کا بل قومی اسمبلی کے بعد گزشتہ روز سینیٹ میں بھی منظور کرلیا گیا جہاں حال ہی میں منعقد ہونے والے میئر کراچی کے انتخابات کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے سینیٹرز کے درمیان سخت گرما گرمی دیکھنے میں آئی۔

رپورٹ کے مطابق رواں برس مئی میں قومی اسمبلی سے پاس ہونے والا ’توہین پارلیمنٹ بل‘ ایک ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا گیا، اب اس مجوزہ قانون کو صدر کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا تاکہ اسے پارلیمنٹ کا ایکٹ بنایا جا سکے۔

مذکورہ بل بلوچستان کے 4 اور پنجاب سے ایک سینیٹر نے پیش کیا، جن میں کودا بابر، نصیب اللہ بازئی، سرفراز بگٹی، شہزادہ احمد عمر احمد زئی اور رانا محمود الحسن شامل ہیں۔

بل ایوان میں آنے کے فوراً بعد وزیر مملکت برائے قانون شہادت اعوان نے چیئرمین کو بتایا کہ قومی اسمبلی پہلے ہی بل کو متفقہ طور پر منظور کر چکی ہے اور اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجے بغیر ووٹنگ کرائی جائے۔

یہ بل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان بالادستی کی جنگ جاری ہے، اراکین اسمبلی عدلیہ پر پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں مداخلت اور ماضی میں فوجی حکومتوں کی توثیق کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

مجوزہ قانون کے تحت اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تشکیل دی جانے والی توہین پارلیمنٹ کمیٹی میں 5 ارکان شامل ہوں گے جن میں سے 3 قومی اسمبلی اور 2 سینیٹ سے ہوں گے۔

سیکریٹری قومی اسمبلی، توہین پارلیمنٹ کمیٹی کے سیکریٹری کے طور پر کام کریں گے، مجوزہ قانون اسپیکر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اس ایکٹ کے نافذ ہونے کے 30 روز کے اندر توہین پارلیمنٹ کمیٹی تشکیل دے سکتا ہے۔

مزید پڑھیے  وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا معاملہ،حمزہ شہباز نے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے درخواست دائر کردی

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 2، 2 ارکان کے نام دونوں ایوانوں میں قائد حزب اختلاف اور پارلیمانی لیڈر تجویز کریں گے جبکہ قومی اسمبلی کے ایک رکن کو اسپیکر اسمبلی نامزد کریں گے، کمیٹی کو اکثریتی فیصلے سے سزائیں دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ جو بھی اس قانون کے تحت توہین کا ارتکاب کرے گا، اسے قید کی سزا دی جائے گی جو 6 ماہ تک ہو سکتی ہے یا جرمانہ عائد کیا جائے گا جوکہ 10 لاکھ روپے تک ہو سکتا ہے یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔

بل کے مطابق توہین پارلیمنٹ کمیٹی کو ’کوڈ آف سول پروسیجر 1908‘ کے تحت سول عدالتوں میں کسی بھی شخص کو حاضری ہونے اور دستاویزات پیش کرنے کا پابند کرنے کے اختیارات حاصل ہوں گے۔

کمیٹی کے سامنے تمام کارروائی نیم عدالتی ہوگی اور کمیٹی کی جانب سے ریکارڈ کا حصہ بنائی گئی کوئی بھی دستاویز یا ثبوت کسی بھی عدالت میں بطور ثبوت قابل قبول نہیں ہوں گے۔

بل کے سیکشن 10 میں کہا گیا ہے کہ ایوان کا کوئی بھی فیصلہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ذریعے عمل میں لایا جائے گا، اس قانون کے تحت فیصلے کے خلاف کوئی بھی اپیل 30 دن کے اندر اسپیکر یا چیئرمین کے سامنے دائر کی جا سکتی ہے۔

قومی اسمبلی یا سینیٹ کی استحقاق کمیٹی 60 روز کے اندر پارلیمنٹ کے استحقاق کی خلاف ورزی یا پارلیمنٹ کی توہین کے معاملے پر سفارشات کے ساتھ ایک رپورٹ تیار کرے گی اور اس کی رپورٹ متعلقہ ایوان میں رکھ دی جائے گی تاکہ اس معاملے کو توہین پارلیمنٹ کمیٹی کو بھیج دیا جائے۔

مزید پڑھیے  9 مئی کے واقعات سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی گفتگو موجود ہے، رانا ثنا اللہ

بل کے مطابق اس ایکٹ کے تحت ایسا کوئی بھی شخص توہین پارلیمنٹ کا مجرم ہوگا، اگر اس نے جان بوجھ کر کسی رکن، ایوان یا کمیٹی کے استحقاق کی خلاف ورزی کی، اراکین کے استثنیٰ یا مراعات کی ضمانت دینے والے کسی قانون کی خلاف ورزی کی، ایوان یا کمیٹی کے کسی حکم یا ہدایت کو ماننے میں ناکام رہا یا انکار کیا، ثبوت دینے سے انکار کیا یا کمیٹی کے سامنے جھوٹا بیان ریکارڈ کرایا، کسی گواہ کو ثبوت فراہم کرنے، دستاویزات پیش کرنے یا کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے روکنے کی کوشش کی، کوئی بھی دستاویزات فراہم کرنے میں ناکام رہا یا ایوان/کمیٹی کے سامنے ترمیم شدہ دستاویزات جمع کرائے۔

Back to top button