بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ کے باہر دھرنے جیسے اقدام سے باز رہیں، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن

حکمران اتحاد، سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی مبینہ حمایت کرنے پر عدلیہ کے خلاف کل دھرنا دینے کے لیے تیار ہے، تاہم سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے اقدام سے باز رہیں۔ رپورٹ کے مطابق کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے امکان کے پیش نظر سپریم کورٹ کے رجسٹرار عشرت علی نے گزشتہ روز اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کا اجلاس طلب کیا جس میں سیکیورٹی انتظامات پر بریفنگ دی گئی۔

احتجاج کا اعلان جمعہ کو سربراہ جے یو آئی (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے کیا تھا جو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) الائنس کے سربراہ بھی ہیں۔پی ڈیم ایم کا کل پیر کو اسلام آباد کے کانسٹی ٹیوشن ایونیو میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر دھرنا دینے کا ارادہ ہے، جہاں کل سپریم کورٹ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت شروع کرے گی۔

تحریر جاری ہے‎

مسلم لیگ (ن) نے اعلان کیا ہے کہ پارٹی کی چیف آرگنائزر مریم نواز دھرنے میں شرکت کے لیے پہلے ہی اسلام آباد پہنچ چکی ہیں۔

ایک بیان میں صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد ایس زبیری اور سیکریٹری مقتدیر اختر شبیر نے حکمران سیاسی جماعتوں سے درخواست کی ہے کہ وہ احتجاج نہ کریں اور نہ ہی ایسا اقدام کریں جس سے عدلیہ کی سالمیت اور امور کو نقصان پہنچے، انہوں نے سیاسی اسٹیک ہولڈرز پر بھی زور دیا کہ وہ ملک کی ترقی کے بہترین مفاد میں سیاسی درجہ حرارت کو کم کریں۔

مزید پڑھیے  شہر قائد میں یہی چلا آ رہا ہے کہ جو آتا ہے مال بناتا ہے اور چلا جاتا ہے،چیف جسٹس

بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کے ساتھ کھڑی ہے، علاوہ ازیں بیان میں سیاسی جماعتوں کے اعلان کردہ احتجاج کے خلاف سپریم کورٹ کے تحفظ کے لیے غیر متزلزل حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔

بیان میں عدالت عظمیٰ کے تقدس اور سالمیت کو مجروح کرنے کی کسی بھی کوشش پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ تشدد کسی بھی شکل میں قانون کی خلاف ورزی ہو گا اور امن و امان کے لیے خطرہ ہو گا، خاص طور پر ایسی صورتحال میں کہ جب دفعہ 144 نافذ ہے اور آرٹیکل 245 کے تحت وفاقی دارالحکومت میں فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے پہلے ہی طلب کیا جاچکا ہے۔

لہٰذا بیان میں زور دیا گیا کہ یہ وفاقی حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور اس کے متعلقہ ذیلی اداروں پر فرض ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی حفاظت اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فول پروف سیکیورٹی انتظامات کریں۔

Back to top button