بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

شہر قائد میں یہی چلا آ رہا ہے کہ جو آتا ہے مال بناتا ہے اور چلا جاتا ہے،چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ شہر قائد میں سالہا سال سے یہی چلا آ رہا ہے کہ جو آتا ہے مال بناتا ہے اور چلا جاتا ہے۔

نارتھ ناظم آباد میں اسپتال کی پارکنگ کیلئے سرکاری جگہ پر قبضےکیخلاف درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہوئی۔

اسپتال کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ضیاء الدین اسپتال نے کسی سرکاری جگہ پر قبضہ نہیں کیا، لوگ روڈ پر خود ہی پارکنگ کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اتنا بڑا اسپتال ہے آپ کی اپنی پارکنگ کیوں نہیں ہے؟

عدالت نے ڈی جی کے ڈی اے سے استفسار کیا کہ یہ روڈ آپ کیوں نہیں بناتے، اسے بند کیا ہوا ہے؟ روڈ پر گھر کیسے بن گئے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے شہر کا یہی حال ہے، پورا کراچی گرے اسٹرکچر ہو گیا ہے، آپ لوگ دفتر چائے پینے آتے ہیں، آپ نے شہر کو بنانا ہے، آپ کو پتہ ہے شہر کیا ہوتا ہے، کراچی میٹرو پولیٹن سٹی ہے، کر کیا رہے ہیں آپ؟

سپریم کورٹ نے ڈی جی کے ڈی اے سے استفسار کیا کہ کتنے لوگوں کو آپ نے نوٹس جاری کیے ہیں؟ جس پر ڈی جی کے ڈی اے نے کہا کہ جلدی جلدی تبادلے ہو جاتے ہیں، میرا بھی تبادلہ کر دیا گیا تھا، میں نے ہائیکورٹ سے رکوایا ہے۔

عدالت نے پوچھا کہ آپ کی جگہ کس کو ڈی جی کے ڈی اے لگایا گیا ہے؟ ڈی جی کے ڈی اے نے بتایا کہ میری جگہ محمد علی شاہ کو لگایا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ کون ہیں یہ محمد علی شاہ؟ جس پر انہوں نے کہا کہ میں معلوم کر لیتا ہوں۔

عدالت نے ڈی جی کے ڈی اے سے استفسار کیا کہ شہر میں کتنے رفاہی پلاٹس ہیں، جس پر انہوں نے بتایا کہ شہر میں 3000 کے قریب رفاہی پلاٹس ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ رفاہی پلاٹس پر کہیں کلب چل رہا ہے تو کہیں شادی ہال، کچھ اور باقی پلاٹوں پر گھر بنے ہوئے ہیں۔

وکیل ضیاءالدین اسپتال نے کہا کہ ماسٹر پلان منگوا لیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ الگ بنا ہوا ہے؟ ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کون چلا رہا ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کا الگ ڈائریکٹر ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا اسپتال کے سامنے والی سڑک بند پڑی ہے؟ جس پر شہری نے بتایا کہ جی بند پڑی ہے، اسپتال نے قبضہ کیا ہوا ہے، نسلہ ٹاور کو 350 گز قبضے پر توڑا جا رہا ہے جبکہ ضیاء الدین اسپتال نے 3500 گز زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے۔

اسپتال کے وکیل کا کہنا تھا جوائنٹ سروے کروا لیں سب کچھ سامنے آ جائے گا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سروے تو ہو جائے گا اس پر عمل درآمد کون کرے گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا شہر میں ڈسٹ کا حال دیکھ لیں، کے ڈی اے والے صاحب سہراب گوٹھ بھی کیا آپ کے انڈر آتا ہے؟ ڈمپر ٹرک کھڑے ہیں وہاں سارا اسکریپ پڑا ہوا ہے، کے ڈی اے کا اپنا ڈائریکٹر حکم امتناع پر ہے۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا 40 سال سے یہی حال ہے، جو آتا ہے مال بناتا ہے اور پھر کینیڈا، لندن یا امریکا چلا جاتا ہے۔

درخواست گزار امبر علی بھائی کا کہنا تھا کہیں کے نقشے نہیں ہیں کہیں گزیٹیڈ نوٹیفکیشن نہیں ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ڈی جی صاحب آپ کے اپنے ڈپارٹمنٹ کا نقشہ ہے کوئی؟ شہر کا کے ڈی اے کے پاس کوئی نقشہ ہے؟

ڈی جی کے ڈی اے نے کہا کہ ہمارے پاس پرانا ریکارڈ ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ پرانا ریکارڈ لے آئیں، ہم نئے ریکارڈ سے موازنہ کر لیں گے۔

ڈی جی کے ڈی اے نے کہا کہ میں شہر کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں، میں نے پوچھا بھی تھا کیوں میرا تبادلہ کیا جا رہا ہے، کیا وزیراعلیٰ ناراض ہیں؟ کہا گیا کہ نہیں سسٹم ناراض ہے۔

Back to top button