بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

مسٹر کلین نے برطانیہ میں ریکور 50 ارب بحریہ ٹائون کے بقایا جات میں ایڈجسٹ کرائے،240کنال اراضی فرح شہزادی کے نام منتقل کی،رانا ثنا اللہ

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خاں نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد سابق حکومت کا بند لفا فہ معاہدہ کھول دیا گیا ہے ، مسٹر کلین اور صادق و امین نے برطانیہ میں ریکور ہونے والے 50ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے بحریہ ٹائون کے بقایا جات میں ایڈجسٹ کرائے ، اس کے بدلے بحریہ ٹائون نے اربوں روپے مالیت کی 458کنال اراضی القادر ٹرسٹ اور بنی گالہ میں 240کنال اراضی فرح شہزادی کے نام پر منتقل کی ، بحریہ ٹائون کے ساتھ معاہدے پرخاتون اول کے دستخط موجود ہیں ، معاملے کی تحقیقات کے لئے کابینہ کی سب کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے، وفاقی کابینہ نے ڈسکہ الیکشن رپورٹ کو رام لیلی کہانی قرار دیتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی ، ماضی میں سیاسی انتقام کے لئے بے بنیاد مقدمات کی بنا پر ای سی ایل میں نام ڈالے گئے ، ہم نے قواعدکے مطابق ای سی ایل سے نام نکالے ، عدالت کے حکم پر پراسیکیوٹرز تبدیل نہیں کر رہے لیکن دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ شہزاد اکبر نے سیکرٹ فنڈز سے ان پراسیکیوٹرز کو کروڑوں کی ادائیگیاں کیں ۔ وہ منگل کو وفاقی وزرامریم اورنگزیب ، اسعد محمود ، وزیر مملکت پیٹرولیم مصدق ملک اور معاون خصوصی برائے امور کشمیر قمرزمان کائرہ کے ہمراہ وفاقی کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے ۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ آج وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تین دسمبر 2019 کے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بند لفافے میں معاہدے کی منظور ی دی گئی ، یہ بتا یا گیا کہ اس وقت کے وزیراعظم جو خود کو مسٹر کلین ، صادق و امین سمجھتے رہے ہیں نے ایک لفافہ لہرایا اور کہا کہ اس کی منظوری دیدیں ، ایک خاتون کابینہ ممبر نے کہا کہ بعد میں بتائیں گے اور اس کی منظوری ہوگئی، اس معاملے کا جائزہ لیا گیا ۔ اس وقت بھی میڈیا نے بتایا تھا کہ برطانیہ میں 50ارب کی رقم پکڑی گئی ہے ، قانون کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے یہ رقم پکڑی گئی ، برطانوی اتھارٹی نے وہ رقم قبضے میں لے لی ، اس رقم پر پاکستان کی عوام اور ریاست کا حق تھا، برطانیہ نے پاکستان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ یہ رقم غیر قانونی طور پر یہاں پہنچی اور ہم نے قبضے میں لے لی ہے ۔ یہاں سے پھر ایسسٹس ریکوری یونٹ کے شہزاد اکبر درمیان میں آگئے ، حکومت کو چاہیے تھا کہ اس کیس میں فریق بنتی اور رقم پاکستان لائی جاتی، انہوں نے وہاں جا کر اپنا حصہ طے کیا جو کہ مبینہ طور پر پانچ ارب بنتا ہے پھر دونمبری کا طریقہ کار بنایا جس کے مطابق ایک دستاویز مرتب کی گئی ، جب چوروں کو پڑ گئے مور تو پھر ایک طریقہ کار بنایا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ تین دسمبر کو اس دستاویز کو منظور کرانے کے بعد شہزاد اکبر باہر گئے اور عمل مکمل کرانے کے بعد 50ارب بحریہ ٹائون کے بقایا جات کی مد میں ایڈجسٹ کرادیئے گئے ۔ وفاقی کابینہ نے ایک سب کمیٹی قائم کر دی ہے، تحقیقات کرنے کے بعد معاملے کو آگے بڑھایا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ بحریہ ٹائون نے 50 ارب کے عوض 458 کنال اراضی جس کی ڈی سی مالیت 53کروڑ روپے بنتی ہے کا معاہدہ کیا اور یہ جگہ القادر ٹرسٹ کے نام منتقل کی ، پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے اس معاہدے پر ایک جانب بحریہ ٹائون کے دستخط ہیں تو دوسری طرف عمران خان کی اہلیہ کے دستخط ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ القادر ٹرسٹ کے دو ہی ٹرسٹی ہیں ایک اس وقت کے وزیراعظم اور دوسرا انکی اہلیہ ہیں ، اتنا اختیار تو وراثتی جائیداد میں بھی نہیں ملتا جتنے انکو ملے ہیں ، پیسہ لوگوں کا ہے اور اختیار ان کے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ میوٹیشن نمبر 33905 ، 25اگست 2020 کو 100 کنال اراضی فرح شہزادی کے نام ہوا ، ایک اور انتقال نمبر 34945 ، اراضی 100 کنال اراضی فرح کے نام ہوئی اس طرح 240 کنال اراضی بنی گالہ میں ہے منتقل ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ قوم کا 50 ارب لٹا کر اپنا حصہ وصول کیا گیا ، حصہ وصول کرتے وقت کوئی شرم ، حیا اور شرمندگی نہیں ہوئی ۔انہوں نے کہا کہ فرح شہزادی افسران کی ٹرانسفر ،پوسٹنگ ، ہیرے کی انگوٹھیوں کی وجہ نہیں بھاگی بلکہ اربوں کی اراضی منتقلی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ بھاگی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ القادر یونیورسٹی نہیں ہے نہ ہی قومی اسمبلی کا کوئی چارٹر ہے ، پنجاب اسمبلی کا سہارا لیکر ایک کیمپس قائم کیا گیا ، وہاں پر ہونے والی تمام تقاریب کے اخراجات بحریہ ٹائون نے ادا کئے ۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد یہ معاہدہ عام کررہے ہیں، کابینہ کمیٹی اس معاملے کو گہرائی میں دیکھے گی کہ جب ایک آدمی کا پیسہ پکڑا گیا تو وہ ملکیت ریاست پاکستان کی تھی ، حکومت وقت کا کام تھا کہ وہاں جا کر پیسہ واپس لانے کے لئے کوششیں کرتے لیکن ان کا فوکس کچھ اور تھا ۔انہو ں نے کہا کہ ماضی کی حکومت خلاف جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ درج کر کے اس کی بنیاد پر نام ای سی ایل میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ تمام جائیداد اور اثاثے منجمد کیے جائیں اس کی کوئی وضاحت بنتی ہے ؟میرے کیس کو سن لیا جائے اور اگر میں ذمہ دار ہوں تو مجھے سزا دی جائے ، اسی طرح کرپشن کے کیسز بنائے گئے ہیں ،پہلے نیب میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف کیسز بنائے گے ،15 ماہ میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیل میں رہے ، پانچ رکنی بنچ نے ان کی ضمانت لی ، یہ ہی معاملہ اٹھا کے ایف آئی اے میں لے گئے ، اس کیس میں دو دن قبل ان کی ضمانت ہوئی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ڈسکہ الیکشن سے متعلق رپورٹ ،رام کہانی تھی ، مرکزی کرداروں کو چھوڑ کر ڈی پی او ، ڈی سی او ، ڈی ایس پی تھے, ان کو ذمہ دار قرار دیا ہے ، اس وقت کا چیف سیکرٹری ، آئی جی ملوث تھا ، دونوں افسران الیکشن کمیشن کے رابطے میں نہیں آرہے تھے ، انھیں مارچ میں معطل کیا گیا اور دو ماہ بعد بحال کر کے اہم پوسٹوں پر تعینات کر دیا گیا ، کابینہ نے اس معاملے پرشدید برہمی کا اظہار کیا ۔ اس حوالے سے آئندہ چند دنوں میں الیکشن کمیشن جائیں گے اور ذمہ داروں کو نشان عبرت بنانے کی درخواست کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ریٹرننگ افسر کی وجہ سے اس معاملے کی نشاندہی ہوئی اور اسی کو آج تک معطل کیا ہوا ہے ،جس نے صحیح بات کی وہ آج تک سزا بھگت رہا ہے ۔وفاقی وزیر مواصلاتی امور مولانا اسد محمود نے کہا کہ عمران خان اس وقت اپوزیشن جماعتوں اور قائدین پر الزامات لگاتے رہے ، آج ان کی حقیقی کرپشن سامنے آچکی ہے ، وزارت مواصلات میں بھی ایسے ہی کئی معاملات ہیں جو جلد میڈیا کے سامنے لائوں گا ۔وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ بحریہ ٹائون کے غیر قانونی پیسے انگلینڈ میں اکنامک کرائم ایکٹ کے تحت پکڑے گئے اور برطانوی قانون کے مطابق جس ملک کا غیر قانونی پیسہ پکڑا جاتا ہے وہ متعلقہ ملک کو ہی ادا کیا جاتا ہے کیونکہ یہ پیسہ عوام کی امانت ہوتا ہے، 180 سے 190 ملین پائونڈ کی رقم پکڑنے کا سلسلہ 14 دسمبر 2018 سے شروع ہوا اور اس کا کیس چل رہا تھا تو وہاں پر عدالت سے باہر ایک سمجھوتہ کر لیا گیا، یہ پیسہ پاکستان واپس کیا جانا تھا اور حکومت پاکستان کو ملنا تھا لیکن آئوٹ آف کورٹ کسی بھی سیٹلمنٹ کیلئے حکومت پاکستان کی نمائندگی صرف اٹارنی جنرل یا وزارت قانون ہی کر سکتی ہے، کوئی اور نہیں کر سکتا اور نہ ہی حکومت پاکستان کی طرف سے اس طرح کے کسی سمجھوتہ پر دستخط کرسکتا ہے، اٹارنی جنرل کے آفس یا وزارت قانون کے پاس کوئی ایسی دستاویز نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ کسی کو اس طرح کی سیٹلمنٹ کیلئے حکومت پاکستان کی نمائندگی کا اختیار دیا گیا ہو کہ جو پیسہ حکومت پاکستان کو ملنا ہے وہ کسی اور کو دے دیا جائے۔ آئوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ اس طرح کی گئی کہ جو پیسہ حکومت پاکستان کو ملنا تھا وہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے ایک اکائونٹ میں جمع کرا دیا گیا۔ اس آئوٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کو چھپانے کیلئے تحریر کیا گیا کہ اس معاملہ کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا تاکہ یہ نہ پتہ چل سکے کہ 180، 190 ملین پائونڈ جو حکومت پاکستان کو ملنا تھا وہ ادائیگیاں ایڈجسٹ کرنے کیلئے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکائونٹ میں منتقل کر دیا گیا، جب اس اکائونٹ کے حوالہ سے معلومات حاصل کی گئیں تو پتہ چلا کہ یہ بحریہ ٹائون کا وہ اکائونٹ ہے جس کی وجہ سے اسے سپریم کورٹ نے ادائیگیاں ایڈجسٹ کرنے کیلئے جرمانہ کیا ہوا ہے جس کے تحت بحریہ ٹائون نے عدالت کے ذریعے یہ پیسے حکومت پاکستان کو ادا کرنے تھے۔ بحریہ ٹائون کراچی کے کیس میں اس طرح کا ایک فیصلہ ہوا تھا، جس کا پیسہ پکڑا گیا اور جس نے حکومت پاکستان کو جرمانہ ادا کرنا تھا اسی کے اکائونٹ میں حکومت نے تحفہ کے طور پر جمع کرا دیا۔ سیٹلمنٹ کے بعد پھر ایک ڈیل کی گئی اور سابق وفاقی کابینہ کا اجلاس ختم ہونے کے بعد اس وقت کے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے ایک لفافہ سابق وزیراعظم عمران خان کے حوالے کیا کہ یہ اس کا نوٹ کابینہ سے منظور کرا دیں۔ کابینہ کے ارکان سے بھی کہا گیا کہ وہ اس کاغذ کی منظوری دے دیں لیکن اس کی تحریر وہ نہیں پڑھ سکتے۔ مصدق ملک نے کہا کہ ملکی قانون کے مطابق وزیراعظم کا معاون خصوصی کوئی بھی سمری کابینہ میں لے کر نہیں آ سکتا، شہزاد اکبر کس قانون کے تحت وہ سمری کابینہ میں لے کر گئے اس کا کسی کو معلوم نہیں، انہوں نے وزارت قانون و انصاف سے کوئی کلیئرنس نہیں کرائی، وزارت داخلہ، وزارت خارجہ، وزارت خزانہ اور اٹارنی جنرل آفس کے پاس بھی اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جعلسازی سے بحریہ ٹائون کو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی اور ایف بی آر کو ہدایت کی گئی کہ اس پر ٹیکس نہیں لگنا چاہئے، عمران خان نے کابینہ کو دھوکہ دے بحریہ ٹائون کو فائدہ پہنچایا، کابینہ میں سمری پیش کرنے کی بات کی گئی لیکن کوئی سمری پیش نہیں ہوئی، اس سارے معاملے کے فرنٹ مین شہزاد اکبر تھے۔

Back to top button