بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

خیبرپختونخوا میں 2017 کی مردم شماری کیخلاف درخواست دائر

خیبرپختونخوا 2017 کی مردم شماری پر شہری نے پشاور ہائی کورٹ سےرجوع کرلیا اس میں قبائلی اضلاع بھی شامل ہیں، درخواست گزار کا کہنا ہے کہ معاشی حالات اور سابقہ فاٹا سے بے گھر ہونے کے سبب صوبے میں موجود نہیں تھے۔

 رپورٹ کے مطابق درخواست میں محمد اقبال جاوید نے استدعا کی کہ عدالت خیبر پختونخوا اور خاص طور پر قبائلی اضلاع میں مناسب طریقہ کار کے استعمال کے بغیر کی گئی قومی مردم شماری 2017 کو غیر قانونی قرار دے۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے شروع کی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سبب سابقہ فاٹا نقصان کا سامنا کرنا پڑا، اس دوران علاقے کی 80 فیصد آبادی نے اپنے گھر چھوڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2017 میں خیبر پختونخوا میں ایسے حالات نہیں تھے کہ منصفانہ مردم شماری کروائی جائے نہ ہی حکومت نے منصفانہ مردم شماری کروانے کے اقدامات اٹھائے اور اس کے سلسلے میں صوبے کے مخصوص علاقوں میں موجود رہائشیوں کی گنتی کی۔

ایڈووکیٹ ملک محمد اجمل خان کے ذریعے دائر درخواست میں فیڈریشن آف پاکستان بذریعہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، چیئرمین مشترکہ مفادات کونسل، سیکرٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور فنانس ڈویژنز، پاکستان بیورو آف اسٹیسٹکس کے چیئرمین، جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل، کے پی کے چیف سیکریٹری،کے پی بورڈ آف ریونیو، لوکل گورنمنٹ اور فنانس ڈیپارٹمنٹس کے سیکریٹریز فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ سی سی آئی کے اجلاس میں سندھ کی جانب سے بھی 2017 کا سروے بارہاں مسترد کیا ہے جس کی وجہ سے مردم شماری متنازع بن گئی ہے۔

مزید پڑھیے  پاکستان قوم کے اربوں روپے بچائے، برطانوی تفتیش میں بے گناہ ثابت ہوا،شہباز شریف

انہوں نے دلیل دی کی غیر منصفانہ سروے کی وجہ سے آئین کے آرٹیکل 153 اور 154 کا نفاذ ناگزیر ہے جو سی سی آئی کے قواعد و ضوابط کو نافذ العمل کرتا ہے اور اس سے صوبے کے مفاد پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ متنازع مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا کی آبادی 3 کروڑ 5 لاکھ اور قبائلی علاقوں کی آبادی 50 لاکھ ہے جس کے بعد صوبے کی مجموعی آبادی 3 کروڑ 55 لاکھ بنتی ہے، جو ملک کی مجموعی آبادی کے 17 فیصد ہے۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اور پاکستان کے ادارہ شماریات کو ہدایت جاری کی جائے کہ وہ ملک کے مختلف علاقوں اور روزگار کی غرض سے بیرون ملک جانے والے باشندوں سمیت خواتین آبادی کی گنتی بھی کریں جو عموماً مقامی روایات کے سبب محروم رہ جاتے ہیں۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ یا اقتصادی وجوہات کے سبب بے گھر ہونے والوں کو بھی مردم شماری میں شامل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے دلیل دی کہ مردم شماری براہِ راست آئین کے آرٹیکل 51 پر اثرات مرتب کرتی ہے، آبادی کے تحت قومی اسمبلی میں صوبے کی 4 نشستیں مقرر کی گئی ہیں اور آئین کے آرٹیکل 160 کے ذریعے قومی فنانس کمیشن کو دیکھا جاتا ہے۔

Back to top button