بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس، پرویز الہیٰ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جوڈیشل کمپلیکس توڑ پھوڑ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر چوہدری پرویز الہٰی کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔عدالت میں ڈیوٹی جج شاہ رخ ارجمند نے کیس کی سماعت کی، پرویز الہٰی کی عدالت میں پیشی کے دوران ان کے وکلا کی جانب سے وکالت نامہ جمع کروایا گیا۔

پرویز الہٰی نے کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے رات بھر تھانہ سی آئی اے میں رکھا گیا ہے، مجھ سے کسی نے کیا ملاقات کرنی ہے، میں ہی کسی سے ملاقات نہیں کرنا چاہتا۔انہوں نے مزید کہا کہ آصف زرداری، نواز شریف اور شہباز شریف اپنا پیسہ لے آئیں تو ملک کے مالی حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔

وکیل سردار عبدالرازق نے عدالت کو بتایا کہ چوہدری صاحب کی خواہش تھی کہ میں خود اوپر کورٹ روم جاؤں گا۔جج نے ریمارکس دیے کہ پرویز الہٰی صاحب کو بٹھا دیں، چوہدری پرویز الہٰی روسٹرم پر آگئے۔

پولیس نے صدر پی ٹی آئی چوہدری پرویز الہٰی کی 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔پرویز الہٰی کے وکیل سردار عبدالرازق نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ پرویز الہٰی کے خلاف بہت ہی مضحکہ خیز مقدمہ بنایا ہے، پرویز الہٰی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں چوہدری پرویز الہٰی کو متعدد کیسز میں ڈسچارج کیا گیا لیکن انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، پرویز الہٰی کو کئی مرتبہ گرفتار کیا گیا ہے۔وکیل سردار عبدالرازق نے مؤقف اپنایا کہ پولیس نے گوجرانوالہ کیس میں جسمانی ریمانڈ مانگا لیکن عدالت نے مقدمے سے ڈسچارج کر دیا، حال ہی پرویز الہٰی کو متعدد کیسز میں ڈسچارج کیا گیا ہے۔

انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ چوہدری پرویز الہٰی کو تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا لیکن عدالت نے وہ آرڈر معطل کیے، ان کے خلاف صرف سیاسی انتقام لیا جارہا ہے۔وکیل سردار عبدالرازق نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا کہ پرویز الہٰی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے، عدالت نے فیصلہ دیا کہ پرویز الہٰی کو سیکیورٹی کے تحت گھر تک چھوڑا جائے، پی ٹی آئی کے صدر اپنے گھر جارہے تھے کہ انہیں اسلام آباد پولیس نے گرفتار کرلیا۔

مزید پڑھیے  جوبائیڈن کا کا بیان، امریکی سفیر کو طلب کرکے ڈیمارش کرینگے، بلاول بھٹو

وکیل صفائی سردار عبدالرازق نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد پولیس نے پرویز الہٰی کو اغوا کیا ہے، بعد میں معلوم ہوا کہ ڈی سی اسلام آباد نے پرویز الہٰی کا تھری ایم پی او کا آرڈر جاری کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 4 ستمبر کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سب واضح ہے، لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری پرویز الہٰی کو اٹک جیل سے لاہور ہائی کورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

وکیل سردار عبدالرازق نے کہا کہ ہم نے اسلام آباد کے تھری ایم پی او کا آرڈر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، شہریوں کے انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ بادی النظر میں یہ گرفتاری لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے، وکیل سردار عبدالرازق کی جانب سے پرویز الہٰی کی رہائی کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا۔

وکیل صفائی سردار عبدالرازق نے کہا کہ پولیس نے عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھیری ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے اٹک مجسٹریٹ کو حکم دیا تھا کہ چوہدری پرویز الہٰی کو لاہور ہائی کورٹ پیش کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے صدر کے خلاف کوئی ایک واقعہ نہیں، گزشتہ تین ماہ سے گرفتار کیا جا رہا ہے، پرویز الہٰی کو پمز میں طبی معائنہ کروانے کے بہانے اسلام آباد لایا گیا اور جیل میں بند کردیا۔

پرویز الہٰی نے بار بار دلائل کے حوالے سے اپنے وکیل کے کانوں میں سرگوشیاں کیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ لے کر پولیس لائنز گئے۔وکیل صفائی سردار عبدالرازق نے کہا کہ پولیس نے میری گاڑی میں چوہدری پرویز الہٰی کو بٹھایا، فیملی سے نہیں ملنے دیا، پولیس لائنز کے گیٹ پر پہنچے تو اسلام آباد پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔

انہوں نے بتایا کہ پرویز الہٰی کے وکلا کو گاڑی سے پولیس نے اتارا اور گرفتار کرکے تھانے لے گئی، پولیس نے نہیں بتایا کیوں گرفتار کیا جارہا ہے، وارنٹ بھی نہیں دکھائے، پاکستان میں قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، عدالتیں ریلیف دیتی ہیں، عدالتیں آخری امید ہیں۔پرویز الہٰی نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ مجھے ساری رات تھانے میں سونے نہیں دیا گیا۔

مزید پڑھیے  ن لیگ کے ایم پی اے میاں نوید کے والد کو گھر میں قتل کردیا گیا

وکیل نے بتایا کہ چوہدری پرویز الہٰی سے سیاسی وابستگی تبدیل کروانے کی کوشش کی جارہی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی مارچ میں جوڈیشل کمپلیکس پہنچے، توڑپھوڑ کا مقدمہ درج کیا گیا، مقدمے میں نامعلوم ملزمان کا نام شامل کیا گیا، چوہدری پرویز الہٰی کا نام مقدمے میں نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی، چیئرمین پی ٹی آئی کے پیشی والے دن لاہور میں موجود تھے، نامعلوم افراد مقدمے میں وہ ہوتے ہیں جن کی شناخت نہ ہو پا رہی ہو، پرویز الہٰی دو بار وزیر اعلیٰ رہے، معروف سیاسی خاندان سے تعلق ہے، نامعلوم کیسے ہوسکتے ہیں؟

وکیل صفائی سردار عبدالرازق نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عام انسان کو بھی نظر آرہا کہ پرویز الہٰی کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی جارہی ہے، عدالتوں کو نہیں ماننا تو عدالتوں کو بند کردیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پرویز الہٰی کے خلاف تمام کیسز ختم ہوگئے، دل نہیں بھرا تو دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا، وکیل سردار عبدالرازق نے چوہدری پرویز الہٰی کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کر دی۔

وکیل صفائی علی بخاری کے دلائل شروع ہوگئے، انہوں نے بتایا کہ عدالت نے فیصلہ کرنا کیا واقعی ریمانڈ کا کیس ہے یا سیاسی کیس ہے، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے دیگر عدالتوں پر بھی نافذ ہوتے ہیں، پرویز الہٰی پولیس کی حراست میں ہی تھے، 24 گھنٹے میں تفتیشی افسر نےکیا کیا؟ پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا میں تفتیش کا کوئی ذکر ہی نہیں۔

وکیل صفائی علی بخاری نے مؤقف اپنایا کہ پرویز الہٰی کے خلاف پولیس کے پاس کچھ تفتیش کرنے کے لیے ہے ہی نہیں، عدالت کو دیکھنا ہوگا کیا واقعی پرویز الہٰی سے تفتیش درکار ہے بھی یا نہیں، ریمانڈ کسی وجہ سے درکار ہوگا نا، ڈنڈا گاڑی ماچس برآمد کرنی ہوگی، کچھ ہے ہی نہیں مقدمے میں۔انہوں نے کہا کہ صورتحال ایسی ہے کہ کل وکلا ایک دوسرے کی ضمانتیں کروا رہے ہوں گے، شاہ محمود قریشی اس مقدمے میں نامزد ہیں جن کی ضمانت اس کیس میں کنفرم ہوئی ہے۔

مزید پڑھیے  1990 سے 2001  تک کا توشہ خانہ ریکارڈ پبلک کرنےکا حکم

وکیل علی بخاری نے ایف آئی آر پڑھ کر سنانا شروع کر دی۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق خود ہی مدعی اور قاضی نہیں ہوسکتے، پرویز الہٰی کی شناخت پریڈ کی بھی ضرورت نہیں، ملک انہیں جانتا ہے، وکیل علی بخاری کی جانب سے پرویز الہٰی کو کیس سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کر دی گئی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر طاہر کاظم نے اپنے دلائل کا آغاز کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے چیزوں کو موڑ توڑ کر پیش کیا ہے، کل اسلام آباد ہائی کورٹ نے تھری ایم پی او کا آرڈر معطل کیا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے میں آرڈر لکھا اگر کسی مقدمے میں مطلوب نہیں تو رہا کر دیا جائے۔

پراسیکیوٹر طاہر کاظم نے کہا کہ ہمیں یہ مقدمے میں مطلوب تھے جس وجہ سے گرفتار کیا ہے، ان پر الزام ہے کہ ان نے لوگوں کو بھیجا ہے اور مالی معاونت کی ہے، وہ لوگ کون تھے اور گاڑیاں کون سی تھیں اور ان نے مالی معاونت کو طرح کی جس پر تفتیش کرنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ہم نے ان کو کل رہا کیا تھا اور بعد میں گرفتار کیا۔وکیل صفائی سردار عبدالرازق نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ نے کہا پرویز الہٰی کو کسی مقدمے میں گرفتار نہیں کرنا، پرویز الہٰی کی گرفتاری کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی ہے۔

عدالت نے چوہدری پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔بعد ازاں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جوڈیشل کمیشن توڑ پھوڑ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کر لیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز (5 ستمبر) چوہدری پرویز الہٰی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے 3 ایم او کے تحت گرفتاری معطل کرنے پر رہائی کے بعد وفاقی دارالحکومت سے ایک مرتبہ پھر گرفتار کرلیا تھا۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ’پرویز الہٰی کو تھانہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے مقدمہ نمبر 3/23 میں گرفتار کر لیا‘۔

Back to top button