بسم اللہ الرحمن الرحیم

سیاست

پیپلز پارٹی 90 روز کے اندر عام انتخابات کے انعقاد کے سخت موقف سے پیچھے ہٹنے لگی

پیپلز پارٹی 90 روز کے اندر عام انتخابات کرانے کے اپنے سخت مؤقف میں گزشتہ روز پہلی بار کچھ لچک کا مظاہرہ کرتی نظر آئی اور 3 ماہ کی ڈیڈ لائن کا حوالہ دیے بغیر ’آئین کے مطابق‘ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے گزشتہ ماہ اپنے حلقہ بندیوں کے منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس نے 90 روز کے اندر انتخابات کا امکان ختم کردیا تھا، جس کے بعد 3 ماہ کے اندر اندر ملک گیر انتخابات کرانے کا مطالبہ کرنے والی تمام جماعتوں میں پیپلز پارٹی سب سے زیادہ آواز اٹھا رہی تھی۔

ایک سے زیادہ مواقع پر پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما، بشمول شیری رحمٰن، نثار کھوڑو اور نیئر بخاری اس مطالبے کو دہرا چکے ہیں، حتیٰ کہ آئینی ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں الیکشن کمیشن کے ناکام ہونے کی صورت میں قانونی راستہ اختیار کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔تاہم اس حوالے سے اب ایک تازہ پیغام پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے آیا ہے، پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں زور دیا کہ صرف جمہوری عمل کا تسلسل ہی ملک کو درپیش چیلنجز کا حل نکال سکتا ہے۔

چیئرمین کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، نثار کھوڑو، سید ناصر حسین شاہ، سید نوید قمر اور شگفتہ جمانی سمیت پارٹی رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتوں کے بعد بلاول ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ عام انتخابات آئین کے مطابق ہونے چاہئیں تاکہ جمہوری حکومت عوام کے مسائل حل کر سکے۔حالیہ چند ہفتوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے جب پیپلزپارٹی نے 90 روز کی ڈیڈلائن کا واضح طور پر ذکر کیے بغیر آئین کی پاسداری کا مطالبہ کیا ہے۔

مزید پڑھیے  ہمایوں اختر استحکام پاکستان پارٹی میں شامل، اہم عہدہ بھی مل گیا

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نثار کھوڑو بھی اس نئی پارٹی لائن پر آمادہ ہو گئے ہیں جنہوں نے سندھ اسمبلی کی تحلیل کے ایک روز بعد 12 اگست کو اس مطالبے کو دہرایا تھا، سینیٹر کا اب کہنا ہے کہ ان کی پارٹی ہمیشہ آئین کے ساتھ کھڑی ہے اور مضبوط اور خوشحال جمہوری نظام کے لیے یونہی کھڑی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 آئین سے بالاتر نہیں ہے اور اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ انتخابات 90 روز کے اندر کرائے جائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ تازہ حلقہ بندیاں عملی طور پر زیادہ مؤثر نہیں ہوں گی کیونکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد میں اضافے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

Back to top button