بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی نے دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز عدالت میں توشہ خانہ کیس میں دفعہ 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ میں نے جھوٹا بیان اور ڈیکلریشن جمع کروایا ہے۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کے کیس پر سماعت کی۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشنز جج ہمایوں دلاور نے کی جہاں پی ٹی آئی چیئرمین بھی پیش ہوئے۔

دوران سماعت جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ میں سوالات سنا رہا ہوں، جوابات دینا چاہیں تو دیں۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو روسٹرم پر پیش کرنے کا حکم دیا۔

جج ہمایوں دلاور نے پی ٹی آئی چیئرمین سے استفسار کیا کہ عدالت سوالات آپ کو پڑھ کر سنائے گی، باقی آپ کی مرضی، کیا آپ نے شکایت کنندہ کے الزامات پڑھے ہیں؟

اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ میں نے شکایت کنندہ کے بیانات نہیں سنے کیونکہ میری موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوئے، میری موجودگی میں فردِجرم عائد نہیں کی گئی، مجھے فرد جرم پڑھ کر نہیں سنائی گئی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے وکلا نے سیشن عدالت کی جانب سے نمائندہ مقرر کرنے کی مخالفت بھی کی، توشہ خانہ کیس میں ملزم صرف ایک ہے، سیشن عدالت خود سے میرا نمائندہ مقرر نہیں کرسکتی۔

عمران خان نے کہا کہ گواہان کے بیانات قلم بند کرتے وقت اومنی بس فیصلہ جاری نہیں کیا گیا، مجھے گواہان کے بیانات قلم بند کرتے وقت ہر سماعت پر استثنیٰ دیا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ سیشن عدالت کے فیصلے کے مطابق میرے مقرر نمائندے کا مؤقف ٹھیک طرح نہیں لکھا گیا، عاشورہ کی چھٹیوں کے دوران گواہان کے بیانات مجھے فراہم کیے گئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 17 جولائی کو کو مجھے گواہان کے بیانات کی کاپی فراہم کی گئی، 31 جولائی کو مکمل دن میں عدالت میں رہا اور گواہان کے بیانات پڑھے، میں نے اس کیس میں کسی کو نمائندہ مقرر کیا ہی نہیں کیا بلکہ سیشن عدالت نے خود ہی میرا نمائندہ مقرر کردیا۔

عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے شکایت دائر کرنے کے لیے کسی کو نامزد نہیں کیا، الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر شکایت 120 دنوں کے بعد دائر کی گئی، میں نے 18 -2017 کے اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے۔

انہوں نے عدالت کے سامنے کہا کہ میں نے 19-2018کے اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے اور 20-2019 کے اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مزید کہا کہ میں نے 21-2020 کے اپنے اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے، اسپیکر قومی اسمبلی نے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجا جو بدنیتی پر مبنی تھا،اسپیکر قومی اسمبلی کے بھیجے گئے ریفرنس میں قانون کو غلط طریقہ کار سے سمجھا گیا تھا، مجھ پر ریفرنس میں 18 -2017 اور 19 -2018کے اثاثہ جات کا زکر کیا گیا، الیکشن کمیشن نے اگلے برسوں کے بھی اثاثہ جات تک رسائی حاصل کی جو موجودہ حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 19-2018 میں دائر جواب میں نہیں کہا کہ 5 کروڑ 80 لاکھ روپے نجی بینک میں جمع کروائے، قانون میں نہیں لکھا کہ تحائف کے نام جمع کروائیں جائیں۔

عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فارم بی میں تحائف کے نام لکھنے کا کالم موجود ہی نہیں، لسٹ بناتے وقت تحائف کی تفصیلات نہیں بنائی گئیں، لسٹ بناتے وقت کسی نے تحائف کی مالیت کی تفصیلات بھی نہیں بنائیں، گواہان نے تحائف کی مالیت کا چالان بھی عدالت میں جمع نہیں کروایا، مجھ سے تحائف کے حوالے سے دستاویزات بناتے وقت رابطہ نہیں کیا گیا، صرف اتنا کہوں گا کہ تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو سوالنامے میں نہیں لکھا جا سکتا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ تحائف کے حوالے سے دستاویزات فراہم کرنے والا بطور گواہ عدالت پیش نہیں ہوا، تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو نہ تصدیق کیا گیا نہ اس کی شہادت لی گئی، کسی فرد نے تحائف کے حوالے سے دستاویزات کا بطور گواہ اقرار نہیں کیا، کابینا ڈویژن سے کسی گواہ کو پیش نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیے  سینیٹ الیکشن،علی حیدر گیلانی، فہیم خان اور کیپٹن (ر) جمیل پر کرپٹ پریکٹس ثابت

انہوں نے کہا کہ تحائف کی مالیت سے متعلق بھی استغاثہ نے کوئی گواہ پیش نہیں کیا، استغاثہ نے ان دستاویزات میں سے کسی ایک کا گواہ پیش نہیں کیا،میں نے جواب میں نہیں کہا کہ 5 کروڑ 80 لاکھ کی رقم بنک میں وصول کی۔

عمران خان نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں درج تحائف کے حوالے سے دستاویزات کا کبھی مجھ سے پوچھا ہی نہیں گیا، کابینا ڈویژن کی جانب سے کوئی گواہ شکایت کنندہ عدالت میں نہیں لایا، دستاویزات 160 صفحات پر مشتمل ہیں لیکن شکایت کنندہ اس حوالے سے کوئی گواہ سامنے نہیں لایا۔

انہوں نے کہا کہ شکایت کنندہ نہ کوئی ایسا گواہ سامنے لایا جس کے سامنے تحائف کے حوالے سے دستاویزات تشکیل دیے گئے ہوں، تحائف کے حوالے سے دستاویزات کو بطور ثبوت عدالت میں شامل نہیں کیا جا سکتا، بینک ریکارڈ قابل قبول شہادت نہیں، بینک ریکارڈ وصول کرنے والے کسی گواہ کو پیش نہیں کیا گیا، جس افسر نے ریکارڈ تیار کیا اسے بھی گواہ نہیں بنایا گیا۔

عمران خان نے مزید کہا کہ استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ یہ کمپیوٹر جنریٹڈ دستاویزات ہے، بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ میری غیر موجودگی میں الیکشن کمیشن نے طلب کیا،الیکشن کمیشن نے فیصلہ جاری کرنے کے بعد بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ مانگا، بینک اسٹیٹمنٹ کا ریکارڈ لینے اور جمع کروانے والا فرد بطور گواہ پیش نہیں ہوا۔

عمران خان نے مزید کہا کہ مجھ سے 19-2018 میں چار تحائف کا پوچھنا درست نہیں کیونکہ میرے پاس اسی سال یہ تحائف موجود نہیں تھے، شکایت کنندہ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ 19-2018 میں چار تحائف میرے پاس ہی تھے یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ استغاثہ کا پیش کیا گیا بینک ریکارڈ قانون کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، یہ درست نہیں کہ میں جھوٹا بیان اور ڈیکلریشن جمع کروایا، استغاثہ نے ایسا کوئی گواہ پیش نہیں کیا جس نے بتایا ہو کہ تحائف میں نے رکھے ہوں، الزام ہے آپ نے پانچ تحائف گوشواروں میں ظاہر نہیں کیے، استغاثہ کا یہ الزام درست نہیں مین نے یہ تحائف اپنے ٹیکس گوشواروں کے فارم بی میں لکھے تھے۔

عمران خان نے کہا کہ میں نے 19-2018 میں غلط اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائے 20-2019 میں تین تحائف کا پوچھنا درست نہیں کیونکہ میرے پاس تحائف موجود نہیں تھے، شکایت کنندہ نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ 20-2019 میں تینوں تحائف میرے پاس تھے یا نہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ میں نے 20-2019 میں غلط اثاثہ جات الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائے، میں نے 21 -2020 میں اپنے ظاہر اثاثہ جات میں قیمتی تحائف کا زکر کیا جس کے لیے 11 ملین روپے ادا کیے، میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نے قیمتی تحائف کا ذکر الیکشن کمیشن میں دائر اثاثہ جات میں کیا۔

عمران خان نے کہا کہ توشہ خانہ تحائف زاتی استعمال کے لیے تھے جن کا ذکر میرے ٹیکس کنسلٹنٹ نے دائر اثاثہ جات میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ 21 -2020 میں جمع کروائے گئے چالان توشہ خانہ، کابینا ڈویژن اور الیکشن کمیشن میں بھی جمع ہیں، سوچنا عجیب ہے کہ الیکشن کمیشن نے پانچ تحائف پر کیسے اخذ کرلیا کہ میں نے جمع نہیں کروائے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے الیکشن کمیشن میں 21 -2020 کے ٹیکس ریٹرن بھی ظاہر کیے، 21 -2020 میں ٹیکس ریٹرن اور اثاثہ جات میں نے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے تھے۔

عمران خان نے کہا کہ میرا اکاؤنٹ چالیس سال سے کام کر رہا ہے، اسے اثاثہ جات جمع کروانے کے حوالے سے معلوم ہے، یہ بات جھوٹ ہے کہ 21 -2020 میں اثاثہ جات کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں غلط بیان ریکارڈ کیا گیا، الیکشن کمیشن میں دائر 21 -2020 کا ایک بھی میرا بیان جھوٹا نہیں جس کا الزام شکایت کنندہ نے مجھ پر لگایا۔

مزید پڑھیے  پانامہ اور اقامہ ڈرامے کے فنکار آج ایک جگہ جمع، رانا ثنا اللہ کا عمران ثاقب نثار ملاقات پر تبصرہ

عمران خان نے کہا کہ ستر سال کی تاریخ میں الیکشن کمیشن یا نیب نے توشہ خانہ ریکارڈ کبھی مانگا، مجھ سے تحائف کا کیا اس لیے صرف پوچھا جا رہا ہے تاکہ مجھے نااہل کر سکیں۔

عمران خان نے کہا کہ میرے خلاف فوجداری کی شکایت دائر کی گئی، شکایت کنندہ پر لازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تحائف میرے پاس تھے جو اس نے ثابت نہیں کیے، میں نے تحائف ذاتی طور پر نہیں بیچے، میں نے بریگیڈیئر وسیم چیمہ کے ذریعے تحائف بیچے جن کو عدالت بطور گواہ نوٹس جاری کرسکتی۔

عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 20-2019 کے حوالے سے کبھی خریداروں کے نام نہیں پوچھے، الیکشن کمیشن نے آج تک کسی سے توشہ خانہ تحائف کے خریداروں کے نام نہیں پوچھے، فوجداری کارروائی میں شکایت کنندہ کو ثابت کرنا ہے کہ تحائف میرے پاس تھے جو میں نے ظاہر نہیں کیے، تحائف پاس ہونے کے باوجود ظاہر نہ کرنے کے الزام پر شکایت کنندہ کے پاس نہ ثبوت نہیں۔

عمران خان نے کہا کہ جنوری 2019 میں کوئی توشہ خانہ کا چالان میں نے جمع نہیں کروایا، 22 جنوری 2019 سے 30 جون 2019 کے دستاویزات شکایت کنندہ نے جمع نہیں کروائے، دستاویزات سے 3 کروڑ روپے کا ڈیپازٹ ظاہر ہوتا جو شکایت کنندہ نے بطور ثبوت پیش نہیں کیا۔

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے خود ہی بینک اکاؤنٹ کے دستاویزات کو اخذ کرلیا اور مجھ سے تصدیق بھی نہیں کی 19-2018 میں 5 کروڑ 80 لاکھ روپے کی رقم بینک میں جمع نہ کرنے کی بات الیکشن کمیشن نے خود سے اخذ کرلی۔

انہوں نے کہا کہ تحائف بیچنے کے بعد میرے پاس وصول رقم صرف 2 کروڑ 80 لاکھ روپے رہ گئی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ 20-2019 میں وصول کردہ تحائف اثاثہ جات میں ظاہر کرنا ضروری نہیں تھا کیونکہ سال ختم ہونے سے قبل ان کو اگلے تحفے میں دے دیا گیا تھا، تحائف بیچنے کے بعد وصول کردہ رقم اثاثہ نہیں سمجھا جا سکتا۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ میرا اسسٹنٹ فیصلہ کرتا ہےکہ اثاثہ جات کی کون سی تفصیلات مہیہ کرنی ہیں یا نہیں، میرے کنسلٹنٹ نے توشہ خانہ کے تحائف کو ایک گروپ کی شکل میں شامل کیاتھا، میں نے توشہ خانہ تحائف اپنے پاس پچاس فیصد قیمت پر رکھے۔

عمران خان نے کہا کہ پہلے تحائف رکھنے کی قیمت 20 فیصد ہوا کرتی تھی جو پی ٹی آئی حکومت نے 50 فیصد کردی تھی، کابینا ڈویژن کو توشہ خانہ تحائف کا بتایا جن کو الیکشن کمیشن میں ظاہر کیا گیا ہے، ذاتی استعمال کے لیے تحائف کا زکر فارم بی میں کہیں نہیں، الیکشن کے لیے امیدوار کو اپنے اثاثہ جات ظاہر کرنا ضروری ہوتے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ شکایت کنندہ نے مجھ پر الزام سیاسی بنیادوں پر لگایا جو جھوٹا ہے، شکایت کنندہ نے جھوٹا الزام لگایا کہ میں نے اثاثہ جات کے حوالے سے جھوٹا بیان الیکشن کمیشن میں دائر کیا۔

انہوں نے کہا کہ شکایت کنندہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ گواہ مصدق انور اثاثہ جات کے ریکارڈ کا محافظ ہے، دورانِ جرح گواہ مصدق انور نے اثاثہ جات کا محافظ ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، توشہ خانہ کیس سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے، پی ڈی ایم حکومت کے کہنے پر میرے خلاف کیس بنایا گیا، دونوں گواہان سرکاری ہیں،جن کو میرے خلاف استعمال کیا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اتھارٹی لیٹر میں شکایت کنندہ کا نام ہی نہیں، شکایت کنندہ کو میرے خلاف شکایت دائر کرنے کی ڈائریکشن نہیں دی گئی، گواہ مصدق انور کا عہدہ بھی نہیں لکھا گیا، گواہان کو آخری لمحے پر میرے خلاف بطور گواہ سامنے لایا گیا، گواہان کو میرے خلاف جھوٹا بیان دینے کے لیے لایا گیا۔

عمران خان نے مزید کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ گواہان میرے خلاف جھوٹا بیان دیں، 14 ماہ سے پی ڈی ایم حکومت مجھے انتخابات سے باہر کرنا چاہتی ہے۔

مزید پڑھیے  پاکستان میں 19 ہزار 727 سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند

عمران خان نے کہا کہ توشہ خانہ بشمول 180 دیگر کیسز اور دو قاتلانہ حملے میرے خلاف کروایا گیا، 9 مئی کے واقعات پر میرے 10 ہزار سے زائد کارکنان اور رہنما جیلوں میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیگر کارکنان اور رہنماؤں کو زبردستی انڈر گراؤنڈ کیا گیا، 37 میں سے 30 ضمنی انتخابات تحریک انصاف انتخابات میں 75 فیصد ووٹر تحریک انصاف کا ہے، 75 فیصد سے زیادہ ووٹرز تحریک انصاف کے ہیں، کم نہیں ہوسکتے، پی ڈی ایم حکومت چاہتی کہ تحریک انصاف انتخابات میں حصہ نہ لے سکے، شکایت کنندہ میرے خلاف کوئی بھی ثبوت سامنے لانے پر ناکام رہے۔

عمران خان نے کہا کہ میں اپنی طرف سے گواہان کو عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کا 35 سوالات پر مبنی 342 کا بیان عدالت میں ریکارڈ کرلیا گیا۔

عدالت نے عمران خان نے استفسار کیا کہ کیا آپ اپنے حق میں دفاع پیش کریں گے جس پر انہوں نے کہا کہ میں اپنی صفائی میں شواہد پیش کروں گا، یہ سیاسی بنیادوں پر دائر کیا گیا کیس ہے،استغاثہ کے دونوں گواہ وفاقی حکومت کی کٹھ پتلی تھے۔

عمران خان نے کہا کہ 14 ماہ سے پی ڈی ایم حکومت مجھے الیکشن کی دوڑ سے باہر کرنا چاہتی ہے، اس کیس سمیت 180 کیس بنائے گئے ہیں، دو بار قاتلانہ حملہ کیا گیا، نو مئی کے واقعات کے بعد لیڈرشپ اور ہزاروں کارکنان جیلوں میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یقینی بنایا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ نہ لے سکے، 37 ضمنی انتخابات میں سے 30 انتخابات پی ٹی آئی نے جیتے۔

عمران خان نے کہا کہ سروے کے مطابق پی ٹی آئی کی 70 فیصد عوام میں مقبولیت ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ کیا آپ خود بطور گواہ پیش ہونا چاہتے ہیں، جس پر عمران خان نے کہا کہ استغاثہ میرے خلاف شواہد لانے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔

عدالت نے 35 سوالات کے جوابات کو دوبارہ نظر دوہرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا اور چیرمین پی ٹی آئی کمرہ عدالت میں اپنے وکلا کے ہمراہ بیٹھ گئے۔

دوبارہ سماعت شروع ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی نے عمران خان نے حلف پر بیان دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی طرف سے شواہد عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔

چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی قانونی ٹیم نے 342 کے دیے گئے بیان پر نظرثانی کرلی۔

جج ہمایوں دلاور نے عمران خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جو جوابات دیے اس سے مطمئن ہیں، ا س پر انہوں نے کہا کہ جی میں سوالات کے دیے گئے اپنے جوابات سے مطمئن ہوں۔

جج ہمایوں دلاور نے وکیل خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ لگتا ہے آپ رات گئے جاگتے رہے ہیں، جس پر چیرمین پی ٹی آئی نے جج ہمایوں دلاور سے مکالمہ کیا کہ ہم سب کا ہی آج کل یہ حال ہے سر۔

بعدازاں چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے ریکارڈ کروائے گئے 342 کے بیان پر دستخط کردیے اور اپنی قانونی ٹیم کے ہمراہ کمرہ عدالت سے روانہ ہوگئے۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر نے کہا کہ گواہان کو پیش کرنا ہے تو تھوڑا سا وقت دیا جائے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو نہیں پتا کہ کس کس کو بلانا ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ابھی لسٹ تیار نہیں کی گئی لسٹ تیار کرنے ہے اسی لیے ٹائم چاہیے، متعلقہ گواہان جن کا تعلق بنتا ہے ان کو بلائیں گے، دو دن کا وقت دیا جائے، 3 اگست کا وقت دے دیں ہم گواہان کی لسٹ دے دیں گے۔ تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئ۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ گواہان دو اقسام کے ہیں، ایک سرکاری اور ایک پرائیویٹ گواہ ہوتے ہیں، جس پر جج نے کہا کہ کل ایسا کریں کہ پرائیویٹ گواہان کی لسٹ فراہم کر دیں۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح 9:30 تک ملتوی کردی۔

Back to top button