بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کثرت رائے سے منظور

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کے پیش کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔دوران اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف نے ارکان سے رائے شماری کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی شق وار منظوری دی۔اس موقع پر اسپیکر نے ہدایت کی کہ ایوان کے اندر تصویریں نہ بنائی جائیں، یہ عمل یہاں نہیں کیا جاسکتا۔

اس دوران تحریک انصاف کے سینیٹرز نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر اسپیکر راجا پرویز اشرف کی جانب اچھال دیں اور اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا۔ایوان میں مسلم لیگ ن کی رکن شزا فاطمہ خواجہ نے ترمیم پیش کردی، جس کی وزیر قانون نے حمایت کی۔ترمیم میں کہا گیا کہ قانون منظور ہونے کے بعد ججز کمیٹی کا پہلا اجلاس قواعد و ضوابط طے کرنے کے لیے بلایا جائے گا۔

ترمیم کے مطابق جب تک ججز کمیٹی رولز نہیں بنالے گی اس وقت تک چیف جسٹس یا کوئی بھی جج میٹنگ بلاسکتا ہے، پہلے اجلاس کے بعد اگلے اجلاس کوئی دو جج بھی بلاسکیں گے۔اس موقع پر خطاب میں وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ صدر نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل واپس بھیج دیا۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ریاست کے سربراہ کے طور پر کام کریں، وہ اپنی جماعت کے کارکن کے طور پر کام نہ کریں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دونوں ایوانوں نے اس بل پر بحث کی ہے، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کا تعین بھی ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے اپنے خط میں سوالات اٹھائے ہیں، انہوں نے خط میں  نامناسب الفاظ استعمال کیے، وہ تعصب کی عینک پہن کر جماعت کی سروس شروع کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھیے  پاک بحریہ کا جہاز پی این ایس عالمگیر خیرسگالی مشن پر تنزانیہ پہنچ گیا

وزیر قانون نے کہا کہ بل پارلیمان کی صوابدید ہے، صدر کے ایسے الفاظ مناسب نہیں، صدر اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں کسی سیاسی جماعت کے رکن نہ بنیں۔انہوں نے کہا کہ صدر تعصب کی عینک اتار کر بل کو پڑھ لیتے، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کا تعین بھی ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہوتا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صدر نے جو اعتراض اٹھائے ہیں اس میں قابل اعتراض الفاظ شامل ہیں، صدر نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے نامناسب الفاظ استعمال کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر آئین اور قانون کی پاسداری کی بجائے جماعت کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں، آرٹیکل191 کے الفاظ بڑے واضح ہیں، پارلیمنٹ قانون بناسکتی ہے۔

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں اضافہ کیا ہے، یہ رولز 1980 کی دہائی میں بنائے گئے جب آمرانہ دور تھا، میری ایوان سے درخواست ہے کہ اس بل کو منظور کیا جائے۔

 

Back to top button