بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

شہباز شریف نے صدر مملکت کے لکھے خط کو پی ٹی آئی کی پریس ریلیز قرار دیدیا

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خط کو یکطرفہ اور حکومت مخالف قرار دیتے ہوئے جوابی خط میں کہا ہے کہ یہ کہنے پر مجبور ہوں آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے۔

صدر مملکت نے وزیراعظم شہبازشریف کو 24 مارچ کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے وزیر اعظم کو کہا تھا کہ وہ توہین عدالت سے بچنے کے لیے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔

یہ خط ایک ایسے موقع پر تحریری کیا گیا تھا جب اس سے 2 روز قبل ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو پنجاب میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

اب اس خط کے جواب میں شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو 5 صفحات اور 7 نکات پر مشتمل جوابی خط لکھ دیا ہے۔

وزیرِ اعظم نے خط میں لکھا کہ ’کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے، خط یکطرفہ اور حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں، آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، آپ مسلسل یہی کر رہے ہیں‘۔

شہباز شریف نے لکھا کہ ’3 اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیر آئینی ہدایت پر عمل کیا، قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا، آرٹیکل 91 کی شق 5 کے تحت بطور وزیر اعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں، میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی، اپنے خط میں آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا، اُس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں‘۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جو حوالہ آپ نے دیا ہے وہ ایک مخصوص جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے، آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 4 کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیا گیا ہے‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریاستی عمل داری کے لیے قانون اور امن عامہ کے نفاذ کے مطلوبہ ضابطوں پر سختی سے عمل کیا ہے، تمام افراد نے قانون کے مطابق دادرسی کے مطلوبہ فورمز سے رجوع کیا ہے‘۔

شہباز شریف نے لکھا کہ ’جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کردیا، آپ نے نجی و سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ، افراتفری پیدا کرنے کی کوششوں کو نظر انداز کردیا، پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو آپ نے نظر انداز کردیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی، آپ نے بطور صدر ایک بار بھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی، عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی عسکریت پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی‘۔

شہباز شریف نے جوابی خط میں لکھا کہ ’ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے، یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے، جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اس بارے میں آواز بلند نہیں کی‘۔

انہوں نے صدر مملکت کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ 2022 کی جانب مبذول کرواتے ہوئے لکھا کہ ’پی ٹی آئی اس وقت اقتدار میں تھی، اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرچکی ہے، رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے، رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے، قیدوبند اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیل درج ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمیشن معطل رہا، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے، انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی متعدد رپورٹس میں پی ٹی آئی حکومت کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے‘۔

وزیراعظم نے یاددہانی کروائی کہ ’پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں رکن قومی اسمبلی رانا ثنااللہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا جس کی سزا موت ہے، پی ٹی آئی حکومت نے مرد و خواتین ارکان پارلیمان کو قیدوبند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا، ایک سابق وزیراعظم کے خاندان کی خاتون رکن کو بھی معاف نہ کیا گیا، سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کے لیے نیب کو استعمال کیا گیا‘۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’بطور صدر پاکستان آپ نے ایک بار بھی ان میں سے کسی بھی واقعے پر آواز بلند نہ کی، آپ بطور صدر انسانی حقوق، آئین اور قانون کی ان خلاف ورزیوں پر اُس وقت کی حکومت سے پوچھ سکتے تھے‘۔

شہباز شریف نے مزید لکھا کہ ’آپ کے خط کا جواب اسی لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یکطرفہ رویے کو ریکارڈ پر منکشف کردوں، پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نے عام، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ دی، آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023 کے حکم سے مسترد کردیا، آپ نے 2 صوبوں میں بدنیتی پر مبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کسی قسم کی تشویش تک ظاہر نہ کی، یہ سب آپ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی انا اور تکبر کی تسکین کے لیے کیا‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’صوبائی اسمبلیاں کسی آئینی و قانونی مقصد کے لیے نہیں، صرف وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے تحلیل کی گئیں، آپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ 2 صوبائی اسمبلیوں کے پہلے الیکشن کرانے سے ملک نئے آئینی بحران میں گرفتار ہوجائے گا‘۔

Back to top button