بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

عمران خان نے اداروں کے افسران کو ہدف پر لیا ہوا ہے، رانا ثنا اللہ

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے عمران خان نے اداروں کے افسران کو ہدف پر لیا ہوا ہے لیکن اب فیصلہ ہوا ہے جھوٹ کو اسی وقت دبانا چاہیے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’اعظم سواتی نے ایک پریس کانفرنس کی ہے، جس میں انہوں نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پر الزام لگایا ہے کہ انہیں گرفتار کرکے کسی اور کے حوالے کردیا اور اس نے تشدد کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کسی اور کی بات تو بعد میں آتی ہے سب سے پہلے بات تو ایف آئی اے کی ہے، اگر ایف آئی اے ایک مقدمہ درج کرے، اس کے بعد گرفتار کرکے یا کارروائی کرے اور پھر کسی اور کے حوالے کرتا ہے تو بنیادی طور پر ذمہ داری ایف آئی اے کی ہے، اگر ایف آئی اے کی ہے تو پھر وزارت داخلہ ذمہ دار ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے پر میں نے پہلے بھی پوری انکوائری کی تھی، وہ انکوائری زبانی تھی کیونکہ مجھے کوئی درخواست، شکایت موصول نہیں ہوئی تھی، نہ ہی عدالت یا کسی اتھارٹی کی جانب سے وزارت کو کوئی شکایت موصول ہوئی کہ اس معاملے پر انکوائری کریں‘۔

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’آج صبح اس میں ایک نیا رخ آیا کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے یہ بات نہیں کی تھی تو میں نے دوبارہ اس پارٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایاز کو بلایا اور تفصیلاً پوچھا اور ساتھ ہی سائبر کرائم کے سربراہ ڈاکٹر وقارالدین سید کو بھی بلایا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس عمرانی فتنے کے جو کردار ہیں، جنہوں نے اس ملک کو فتنے اور فساد سے دوچار کرنے، ملک میں افراتفری اور انارکی پھیلانے، قوم کو تقسیم اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا ملک دشمن ایجنڈا اپنالیا ہے اور اس کے لیے مختلف رنگ اور حکمت عملی اختیار کرتےہیں‘۔

سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’چند دنوں سے اداروں کے افسران کو اپنے ہدف پر لیا ہوا ہے، اب اس کا ایک حل یہ ہے کہ ان کی اس گفتگو کا جو آئین اور قانون اور اخلاقیات کے ذمرے میں نہیں آتی ہے تو اس کو نظر انداز کیا جائے لیکن ایک مضبوط رائے تھی کہ یک طرفہ جھوٹ مسلسل بولا جاتا ہے تو بعض صورتوں میں سچ کی صورت اختیار کرلیتا ہے، اس لیے جھوٹ جب بولا جائے اسی وقت وہاں پر دبانا چاہیے اور اسی وقت سچ کو سامنے لانا چاہیے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سچ کو جھوٹ کے مقابلے میں پیچھے نہیں رہنا چاہیے اور سامنے آنا چاہیے، لوگوں میں شعور ہوتا ہے وہ سچ اور جھوٹ میں پہچان کرلیتا ہے‘۔

راناثنااللہ کا کہنا تھا کہ ’اب فیصلہ ہے کہ اب جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں کہ برے کو اس کے گھر تک چھوڑ کر آنا چاہیے، اب ان تمام فتنہ کے کرداروں کو، جب بھی فتنہ گری کرے گا اس کے مقابلے میں جھوٹ کے مقابلے میں سچ لوگوں میں پیش کیا جائے گا‘۔

اعظم سواتی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ بزرگ آدمی ہیں سینیٹر بنے ہیں اور کس طرح سینیٹر بنے ہیں اس پر میں نہیں جانا چاہتا، یہ ٹوئٹ کرتے ہیں، جس میں ایک تصویر کے ساتھ کہتے ہیں شہباز شریف اور حمزہ شہباز منی لانڈرنگ کیس میں بری اور اس کی مبارک باد باجوہ کو دیتے ہیں اور کہتے ہیں اگر یہ ٹھگ ارو کریمنل بری ہوتے رہے تو آپ نے کرپشن کو قانونی بنایا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر عدالت تمہیں بری کرے تو عین انصاف ہے، اگر عدالت رات کو 9 بجے کھلے اور تمہیں ریلیف دے کر گھر بھجوائے تو انصاف ہے، اگر عدالت اتوار کو کھل کر تمہیں ضمانت قبل از گرفتاری دے اور پیش ہونے کی زحمت بھی نہ دے تو عین انصاف ہے اور وہی عدالت اگر ہمیں تمہارے بنائے ہوئے جھوٹے کیسز میں ہمیں بری کرے تو یہ بہت بڑا ظلم ہوگیا اور ملک کو نقصان ہوگیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ان کی سوچ ہے اور عمرانی خمیر کی بنیاد اس سوچ پر رکھی گئی ہے کہ عدالت ہمارے لیے چھٹی کے دن کھلے تو ٹھیک ہے لیکن دوسروں کے لیے کھلے تو غلط ہے‘۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ’حمزہ شہباز دو سال جیل کاٹ کر بری ہوتو بڑا ظلم ہوگیا، شہباز شریف تین مرتبہ ملا کر 14 یا 15 مہینے جیل میں رہ کر ان کیسز میں بری ہو تو ظلم ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر اس بنیاد پر کہ جس معاملے پر نیب میں چل رہا ہو، وہی مقدمہ ایف آئی اے پر نہیں چل سکتا لیکن اسی پر مونس الہٰی کا کیس ختم ہوتو ان کو نظر نہیں آتا اور اگر حمزہ شہباز یا شہباز شریف کو ریلیف ملے تو ظلم ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے جو ٹوئٹ کی، اس میں دو اداروں پر الزام عائد کیا گیا، عدلیہ کی تضحیک کی گئی کہ آپ کسی اور کے کہنے پر لوگوں کو بری کرتے ہیں، انصاف فراہم نہیں کرتے بلکہ کسی اور کہنے پر بری کرتے ہیں اور دوسرا ادارہ جس کا عدلیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اس پر بھی الزام ہے کہ مداخلت کرکے بری کروایا‘۔

راناثنااللہ نے کہا کہ ’اس پر مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اس کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا اور عدالت میں پیش کیا تو میڈیکل کا حکم دیا، 4 ڈاکٹروں نے معائنہ کیا اور اس کے نتیجے میں انہیں جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ قرار دیا اور اس قسم کے واقعے کا امکان رد کردیا‘۔

اعظم سواتی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’یہ اس کے بعد ریمانڈ پر ایف آئی اے کے پاس رہے، پہلا میڈیکل 13 اکتوبر، دوسرا 15 اکتوبر اور تیسرا 16 اکتوبر کو ہوا، ایف آئی اے میں ان کو عزت اور احترام دیا گیا تقریباً روزانہ میڈیکل ہوا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد اتنی ڈھٹائی اور بے شرمی سے ایک ادارے کے دو ذمہ دار افسران کے خلاف یعنی عمرانی فتنے کی حکمت عملی کے تحت الزام لگا رہے ہیں اور ایف آئی اے نے ان کے سپرد کیا تھا اور انہوں نے تشدد کیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر سائبر کرائم ٹیم نے کوئی تجاوز کیا تو سائبر کرائم کے سربراہ کو کسی نے کوئی درخواست نہیں دی، وزارت داخلہ یا کسی عدالت میں تاحال کوئی درخواست نہیں دی گئی کہ زیادتی ہوئی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کو اپنے بندوں کو ننگا کرنے میں کیا حکمت عملی ہے، ہر کسی کو ننگا کررہا ہے اور ہر کسی کے ساتھ جنسی تشدد کروارہا ہے، میرا خیال ہے سواتی صاحب نے محنت کی ہے میرے ساتھ یہ کام نہ کروائے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سنا ہے شیخ رشید صاحب نے بھی بڑی منت کی ہے کہ میں اگر پکڑا جاؤں تو تشدد تک رکھیے گا، اس سے آگے نہیں جائیں، تشدد کی کوئی میڈیکل رپورٹ موجود نہیں، انکوائری کرواتے ہیں، رٹ نہیں کرتے اور کسی عدالت کو نہیں کہتے ہماری انکوائری کریں، صرف پراپیگنڈا کر رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اداروں کے افسروں کے نام لیتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ ان کی گیدڑ بھبکیوں اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے رک جائیں گے‘۔

عمران خان کانام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ ’آپ اس بات پر تل چکے ہیں ملک کو فتنہ اور فساد کے حوالے کرنا ہے، افراتفری اور انارکی میں لے کر جانا ہے تو پھر آپ کو پتا ہے کون سے ادارے اور کون سے قانون نافذ کرنے والے ادارے آپ کی راہ میں حائل ہوں گی‘۔

Back to top button