بسم اللہ الرحمن الرحیم

بین الاقوامی

بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیخلاف سماعت روز کرنے کا فیصلہ

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف درخواست پر 2 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق بھارتی چیف جسٹس دھنَنجیا یشونت چندراچد، جسٹس سجنے کشان کول، جسٹس سجنیو کھنہ، جسٹس بی آر گیوائی اور جسٹس سوریا کانت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے آئینی جواز اٹھانے والی درخواست پر سماعت کی۔

رپورٹ نے بھارتی عدالت عظمیٰ کے حوالے سے بتایا کہ اس کیس کی سماعت 2 اگست کو 10 بج کر 30 منٹ پر شروع ہوگی اور روزانہ کی بنیاد پر جاری رہے گی۔اس میں بتایا گیا کہ قبل ازیں بھارتی حکومت نے عدالت میں حلف نامہ جمع کروایا، جس میں کہا گیا کہ اس سے خطے میں غیرمعمولی ترقی، سیکیورٹی اور استحکام آیا ہے، یہ صورتحال پرانے نظام آرٹیکل 370 کے دوران نظر نہیں آئی۔

انڈین ایکسپریس نے بتایا کہ تاہم چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد نے سماعت کے دوران کہا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے حالیہ حلف نامے سے خصوصی حیثیت منسوخ کرنے کی درخواستوں میں اٹھائے گئے آئینی مسائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور اس مقصد کے لیے اس پر انحصار نہیں کیا جائے گا۔

بھارتی نیوز ایجنسی ’اے این آئی‘ نے علیحدہ سے رپورٹ کیا کہ سپریم کورٹ نے دستاویزات کی تیاری کے لیے دو وکلا کو نوڈل کونسل کے طور پر مقرر کیا۔مزید کہا گیا کہ تحریری گزارشات 27 جولائی کو یا اس سے پہلے جمع کروائی جائیں اور اس میں مزید اضافے کی اجازت نہیں ہوگی۔مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آج کی سماعت ’صرف ایک آغاز‘ ہے۔انہوں نے اے این آئی کو بتایا کہ ہمیں امید ہے کہ سماعت جلد ختم ہو جائے گی اور سپریم کورٹ کا فیصلہ جلد ہمارے سامنے ہوگا۔

مزید پڑھیے   کشمیر میں اقتصادی بدحالی اور بے روزگاری عروج پر ہے،  فاروق عبداللہ

یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔آرٹیکل 370 کے باعث بھارت کی پارلیمنٹ کے پاس دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ ریاست میں قوانین نافذ کرنے کے محدود اختیارات تھے۔بی جے پی کے اس فیصلے کو کشمیری عوام، عالمی تنظیموں اور ہندو قوم پرست حکمران جماعت کے ناقدین نے مسلم اکثریتی خطے کو ہندو آبادکاروں کے ذریعے شناخت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

Back to top button