بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

صدارتی ریفرنس دائر کرنے کے عمل میں وزارت قانون کو اندھیرے میں رکھا گیا

سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح طلب کرتے ہوئے صدارتی ریفرنس دائر کرنے میں وزارت قانون کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان کا مؤقف ہے کہ الیکشن ایکٹ سے متعلق آرٹیکل 63 اے کا تعلق وزارت پارلیمانی امور سے ہے جس میں تمام تر ضوابط مکمل کیے گئے ہیں۔

تاہم قانونی ماہرین اور سابق حکومتی عہدیداران کا اصرار ہے کہ یہ وزارت قانون کا دائرہ کار ہے۔

ذرائع نے نشاندہی کی ہے کہ صدارتی ریفرنس میں ’آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں انحراف کے ذریعہ خیانت سے متعلق کسی بھی پیشگی کارروائی کی ضمانت نہیں دی گئی۔مقررہ طریقہ کار کے مطابق منحرف ہونے والے رکن پر کوئی پابندی یا انتخابات میں حصہ لینے سے متعلق مزید کارروائیوں کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے خود آرٹیکل 63 کی وضاحت کرتا ہے اور یہ وزارت قانون کا عنوان ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ مسئلے پر وزارت قانون کو اندھیرے میں رکھا گیا ہے کیونکہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹ دینے کا ارادہ رکھنے والے پی ٹی آئی کے مخالفین کو نااہل قرار دینے کے لیے آرڈیننس جاری کرنے کی تجویز پر اعتراض کیا تھا۔

وزارت قانون کا خیال ہے کہ آرٹیکل 63 پی قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کی نااہلی سے متعلق ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ’ اس پیراگراف کے مقاصد کے لیے ‘قانون’ میں آرٹیکل 89 یا آرٹیکل 128 کے تحت جاری کردہ آرڈیننس شامل نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیے  سابق سپیکر قومی اسمبلی حادثے میں زخمی

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ کسی بھی قانون ساز کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نا اہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزارت قانون سے اعتراض پر نظرثانی کرنے اور اختلاف کرنے والوں کو روکنے کے لیے ایک ‘مبہم’ آرڈیننس کا مسودہ تیار کرنے کے لیے کہا گیا تھا لیکن ’وزارت نے تعاون نہیں کیا‘۔

بعد ازاں نہ صرف وزارت قانون کو صدارتی آرڈیننس فائل کرنے کی مزید مشاورت سے دور رکھا گیابلکہ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق اجلاس بلانے کے مطالبے پر بھی ان کی رائے نہیں لی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ صدارتی ریفرنس کا مسودہ اٹارنی جنرل نے تیار کیا اور ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کے لیے اسے پارلیمانی امور کے ڈویژن کے پاس بھیجا۔

بعدازاں وزیر اعظم کے مشیر برائےپارلیمانی امور بابر اعوان نے چند تبدیلیوں کے بعد 1973 کے رول آف بزنس کے سیکشن 16 کے ذیلی سیکشن ’ای‘ کے تحت اسے کابینہ ڈویژن میں جمع کروایا۔

اس سیکشن میں وفاقی کابینہ کے سامنے لائے جانے والے معاملات کی وضاحت دی گئی ہے اور اس کے ذیلی سیکشن آرٹیکل 186 کی شق (1) قانونی سوالات پر سپریم کورٹ سے مشورے لینے کا حوالہ دیتی ہے۔

رول آف بزنس کے شیڈول وی بی کے سیکشن 54 کے مطابق متعلقہ ڈویژن کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی قانونی سوال پر سپریم میں ریفرنس پیش کرے۔

وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی برائے بیوروکریسی خواجہ ظہیر احمد کا کہنا ہے کہ آئین کے سیکشن 14 بی سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی قانون کی تشریح سے متعلق ہر ڈویژن کو قانون اور انصاف کے ڈویژن سے مشورہ لینا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے  تحصیل بکا خیل میں چیئرمین کا انتخاب جمعیت علمائے اسلام ف کے امیدوار نے جیت لیا
Back to top button