بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات روک دیئے

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اخترکیانی کی عدالت نے وفاقی دارالحکومت میں بلدیاتی انتخابات روکتے ہوئے ہدایت کی ہےکہ ایکٹ کی بجائے آرڈیننس کے تحت شروع بلدیاتی انتخابات کی کاروائی روک دیں اور وفاقی حکومت بتائے لوکل گورنمنٹ ایکٹ ختم کرکے آرڈیننس کیوں بنایا ؟۔گذشتہ روز سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی جانب سے عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ، بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی، کاشف ملک و دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے،عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ نے کہاکہ الیکشن ہوجائے تو پھر بچا کیا، پھر آرڈیننس ختم کریں گے، عدالت نے کہاکہ آرڈیننس اگر ختم ہوجائے تو کہانی ختم ہوگئی، عدالت نے استفسار کیاکہ کیا اس سٹیج پر آرڈیننس کو معطل کیا جائے ؟،عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ نے کہاکہ نہیں اس وقت آرڈیننس معطل کرنے کی ضرورت نہیں مگر ایکسرسائز کو روکا جائے، عدالت نے کہا کہ آرڈیننس اگر معطل نہیں کرتے تو سسٹم کیسے معطل کریں؟، عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ نے کہاکہ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس ہی معطل کیا جائے، عدالت نے کہاکہ ایسے کیسے آرڈیننس کو معطل کیا جائے کوئی قانون تو بتائیں، عادل عزیز قاضی ایڈووکیٹ نے کہاکہ اگر الیکشن ہوجاتا ہے اور جس دن آرڈیننس ختم ہوگا تب کیا ہوگا ؟،اس موقع پر عدالت نے درخواست گزار وکلا کو اپنی اپنی درخواستیں پڑھنے کی ہدایت کی، کاشف ملک ایڈووکیٹ نے کہاکہ سی ڈی اے آرڈیننس میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی،عدالت نے کہاکہ وہ تو وفاقی حکومت نے دیکھنا ہے کہ سی ڈی اے آرڈیننس کو کب سٹرک ڈاؤن کرنا ہے،الیکشن کمیشن کو پارٹی بنایا گیا وہاں سے کون آیا ہے ؟،اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہاکہ 2015 ایکٹ کے تحت جب الیکشن ہوا تب اسلام آباد کی آبادی ساڑھے آٹھ لاکھ تھی،اس وقت اسلام آباد کی آبادی 2 ملین ہیں،عدالت نے کہاکہ کیسا الیکشن کمیشن ہے کہ آبادی کا تعین کیا ووٹرز کا نہیں کیا،جب آبادی بڑھ جاتی ہے تو حلقہ بندیاں ہوجاتی ہیں، اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ وزارت داخلہ دس دن میں ڈیٹا دے نہیں تو ہم 2015 ایکٹ کے تحت الیکشن کرائیں گے، عدالت نے کہاکہ اسکا مطلب ہے کہ آپ الیکشن کمیشن سے ڈر گئے ؟،وفاقی حکومت نے کس صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرائے؟،جس وقت ملک میں جنگ جاری ہو اور کوئی بھی ادارہ کام نہیں کررہا تب آرڈیننس جاری ہوتا ہے،عدالت نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سے استفسار کیاکہ نارمل حالات میں کیوں آرڈیننس جاری کیا گیا ؟اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے وزارت داخلہ کو دس کا وقت دیا تھا کہ ہم 2015 ایکٹ کے تحت انتخابات کرائیں گے،عدالت نے کہاکہ کون سے صوبے میں حکومت نے بلدیاتی الیکشن کروایا،رو رو کے تو کام کر رہے ہیں وفاقی حکومت تو بلدیاتی الیکشن چاہتی نہیں تھی، سرکاری وکیل نے کہاکہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی الیکشن ہوئے ہیں،عدالت نے کہاکہ بلدیاتی نمائندوں کے پاس تو اختیارات نہیں تھے کیا فیڈرل گورنمنٹ نے فنڈز جاری کئے ؟،یونین کونسل کے پاس تو فنڈ ہی نہیں تھے،جب ملک میں جنگ کی حالت ہو اسمبلی کا اجلاس نا ہو سکتا ہو صرف تب آرڈیننس جاری ہو سکتا ہے،پارلیمنٹ سیشن میں ہو تو آپ کیسے آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں ؟،سرکاری وکیل نے کہاکہ 19 نومبر کو پارلیمنٹ کا سیشن ختم ہو گیا تھا 23 نومبر کو آرڈینس جاری ہوا،آرڈیننس اس وجہ سے جاری کیا کیونکہ الیکشن کمیشن نے 25 نومبر کی ڈیڈ لائن تھی،عدالت نے کہاکہ14 فروری 2021 کو بلدیاتی ادارے ختم ہوئے نومبر تک کیا اسی طرح رہا؟وکیل نے کہاکہ الیکشن کمیشن نے وزارت داخلہ کو آرڈر کیا تھا کہ دس روز میں قانون بتائیں،عدالت نے کہاکہ الیکشن کمیشن کو روک دیتے ہیں آپ آرڈیننس قومی اسمبلی کے سامنے پیش کر دیں،عدالت نےالیکشن کمیشن کے وکیل پر اظہار برہمی کااظہار کرتے ہوئے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ کیس کی سماعت 3 مارچ تک ملتوی کردی

Back to top button