بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

اینکرپرسن ارشد شریف سمیت کسی کو بھی ہراساں نہ کرنے کے حکم میں توسیع،عید پر بھی کچھ ہوا تو عدالت کھلے گی،جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے اینکرارشد شریف سمیت کسی بھی صحافی کو ہراساں نہ کرنے کے حکم میں توسیع کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر عید کے دنوں میں بھی کچھ ہوا تو عدالت کھلے گی۔گذشتہ روز ارشد شریف کی درخواست پر سماعت کے دوران پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے طارق عثمانی، راجہ لیاقت کے علاوہ سینئر صحافی افضل بٹ ا,احسان بخاری افتخار چوہدری ر ضوان قاضی ا ور دیگر عدالت ہیش ہوئے، درخواست گزار وکیل فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ ارشد شریف یہاں موجود ہیں، کورٹ کی مداخلت کے بعد ان کی واپسی ہوئی، چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت ہر کسی کے لیے یہاں موجود ہے،آپ نے کاشف عباسی کا پروگرام دیکھا ہے؟ حقائق کی تصدیق کے بغیر کیا کچھ کہا گیا،انہوں نے کہا کہ عدالت رات کو کھلی کیوں؟ عوام پر عدالت کا اعتماد اٹھانے کی کوشش کی، عدالتیں رات کو تین بجے بھی کھلیں گی اگر معاملہ آئین یا کسی پسے ہوئے طبقے سے متعلق ہو،سپریم کورٹ نے کون سا آرڈر جاری کیا تھا جس سے کوئی متاثر ہوا، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ ایک بیانیہ بنا دیا گیا کہ عدالتیں کھلیں، عدالتیں کھلیں گی اور کسی کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گی،آپ لوگوں کا عوام پر اعتماد ختم کر رہے ہیں،درخواست گزار وکیل فیصل چوہدری نے کہاکہ جنہوں نے پروگرام کنڈکٹ کیا اس متعلق وہی بتا سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت کے بارے میں بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس عدالت پہنچ گئے،آپ چاہتے ہیں کہ عدالت فوری نوعیت کی درخواستیں نہ سنے؟،یہ کورٹ توہین عدالت پر یقین نہیں رکھتی، 2019 کا نوٹیفکیشن ہے، چیف جسٹس نے کمرہ عدالت موجود نجی ٹی کی ویژن اے آروائی کے رپورٹر سے استفسار کیاکہ آپ نے اپنے چینل کو پریس ریلیز دی تھی؟،مطیع اللہ جان کا کیس اس عدالت نے کس وقت سنا؟،آپ کے پٹیشنر نے دستخط نہیں کیے تھے اور عدالت نے پٹیشن سنی، عدالت نے ایک نہیں، عدالتی اوقات کار کے بعد بہت سی درخواستیں سنیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی ذمہ داری بھی ہوتی ہے،آپ کو تو خوش ہونا چاہئے کہ آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جا رہی،اگر رات کو تین بجے کوئی ارشد شریف کو اٹھائے تو کیا عدالت کیس نہ سنے؟کیا اس کی کوئی سیاسی وجوہات ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ عدالت سے اعتماد اٹھ جائے،سپریم کورٹ نے واضح پیغام دیا ہے کہ آئین کے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گی،آپ کو معلوم ہے کہ درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کی گئی تھی،سب لگے ہوئے ہیں کہ عدالتیں کھل گئیں،آپ سمجھتے ہیں کہ عدالتیں نہیں، آپ کا چینل آئین کو بہتر سمجھتا ہے؟،جھوٹ کے اوپر ایک بیانیہ بنا دیا گیا ہے کہ عدالتیں کھل گئیں،آپ کے چینل نے مسنگ پرسنز یا بلوچ سٹوڈنٹس سے متعلق کتنے پروگرام کیے؟چیف جسٹس نے افضل بٹ سے استفسار کیاکہ آپ میڈیا کے نمائندے کے طور پر یہاں موجود ہیں، بتائیں کہ کیا یہ رویہ درست ہے؟جس پر افضل بٹ نے کہاکہ رپورٹرز تو درست خبر دیتے ہیں مگر اکثر آفس میں بیٹھے افراد کو حقائق کا علم نہیں ہوتا اور غلط تبصرہ کر دیتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ سیاسی بیانیے کے لیے اداروں کو تباہ کر رہے ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا،سپریم کورٹ آئین کی تشریح کے لیے اعلی ترین فورم ہے،آپ کو نصیحت ہے کہ یہ کام نہ کریں کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے،آپ کے چینل نے مسنگ پرسنز کے لیے کتنی آواز اٹھائی جو اصل ایشو ہے، بنیادی حقوق کے لیے عدالت کھلے گی، ان بیانیوں سے کچھ نہیں ہو گا،سپریم کورٹ کے اعلی ججز کے بارے میں باتیں ہوتی ہیں، صرف اس لیے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے؟، جہاں پر ہم سے غلطی ہوتی ہے ضرور بتائیں،آپ سب سے پوچھتا ہوں کہ اس رات ہوا کیا؟ کیا کسی عدالت نے کوئی آرڈر پاس کیا ہے؟،عدالت نے عدالتی اوقات کے بعد صحافیوں کی پٹیشنز بھی سنیں،ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ ہم کسی کے کہنے پر بیٹھے تھے،کیا کوئی ہم تک رسائی کر سکتا ہے؟،یہ ہمارا قانون میں ہے کہ چیف جسٹس ایک انتہائی فوری نوعیت کا کیس کسی بھی وقت سن سکتا ہے،اس متعلق 2019 میں نوٹی فکیشن کیا، اس حوالے سے پٹیشن مجھ تک ضرور پہنچے گی،اس پر میں نے فیصلہ کرنا ہے کہ اس میں انتہائی فوری نوعیت کا معاملہ ہے یا نہیں،سیاسی بیانیے کو اداروں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے،افضل بٹ نے کہاکہ ہمیں عدالتوں کا احترام ہے، انہی عدالتوں کی وجہ سے پریس فریڈم ہے،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ 4جولائی 1977 اور12 اکتوبر 1999 کو عدالتیں بیٹھی ہوتیں تو تاریخ مختلف نہ ہوتی؟، اداروں کے ساتھ ایسا نہ کریں، ذمہ داری کا مظاہرہ کریں،افضل بٹ نے کہاکہ اس متعلق اینکرز سے ضرور بات کریں گے،چیف جسٹس نے کہاکہ کورٹ رپورٹرز بہت زبردست کام کر رہے ہیں، ان سے کوئی بات چھپی نہیں ہونی چاہئے تھی صرف کاغذ کا ایک ٹکڑا تھی،لیکن عدالت اس پٹیشن کو رات تاخیر سے بھی سنتی،ارشد شریف کی پٹیشن صرف کاغذ کا ٹکڑا تھی جسے سنا، صحافی ارشد شریف نے کہاکہ ہم مسنگ پرسنز کا ایشو اٹھانا چاہتے ہیں مگر نامعلوم افراد کی جانب سے دھمکیاں ملتی ہیں،اس متعلق غیر اعلانیہ سینسر شپ ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ چینلز ڈرتے ہوں گے، یہ عدالت اللہ کی ذات کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی،سپریم کورٹ کے خلاف سیاسی بیانیوں اور ان پر حملہ کرنے میں کیا فرق ہے؟،چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کسی کے پریشر میں نہیں آتی اور نہ آئے گی،لاپتہ افراد کی آواز میڈیا نے بننا تھا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کاشف عباسی کی بہت عزت کرتا ہوں مگر اس کی بات پر حیرت ہوئی،اس عدالت نے نہ کبھی سوشل میڈیا دیکھا ہے اور نہ کبھی اس کی پرواہ کی،ہم نے حلف لیا ہے جس کو روزانہ پڑھتے ہیں،جن صحافیوں کو دن دیہاڑے اٹھایا گیا کیا میڈیا ان کی آواز بنا؟،1960 سے جن لوگوں سے زمینیں لی گئیں اور آج تک پیسے بھی نہ دیے، عدالت نے ان سے متعلق فیصلہ دیا، عدالتیں کھلنے سے تکلیف کس کو ہوئی؟ سپریم کورٹ نے واضح پیغام دیا کہ آئین کے خلاف کوئی کام نہیں ہو گا، چیف جسٹس نے ارشد شریف اور ان کے وکیل سے استفسار کیاکہ کیا آپ کا مسئلہ حل ہو گیا؟، جس پر وکیل نے کہاکہ کال آئی کہ بوئنگ 777 کی سٹوری پر کوئی ایکشن لیا جا رہا ہے، انہوں نے مجھے پٹیشن فائل کرنے کا کہا تھا جو میں نے دائر کی،ارشد شریف نے بتایا کہ رات ڈیڑھ بجے بھی گھر کے باہر سادہ کپڑوں میں لوگ موجود تھے،عید آ رہی ہے، ان دنوں میں وکیل سے رابطہ بھی مشکل ہو جاتا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اگر عید کے دنوں میں بھی کچھ ہوا تو عدالت کھلے گی؟،ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایاکہ ہم نے کوئی ایکشن نہیں لیا، کوئی انکوائری نہیں کی،ہراساں کرنے کے الزام میں بھی کوئی صداقت نہیں،ہم نے اس متعلق تحریری وضاحت بھی جاری کر دی ہے،فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم نے گھر بھی جانا ہوتا ہے، وہی الزام لگائیں گے کہ گھر بھی پہنچ سکیں،الزام اتنا ہی لگانا ہے جو ہضم ہو جائے، چیف جسٹس نے کہاکہ9 اپریل کی رات اس عدالت کی صرف لائٹس آن ہوئی تھیں ان سے کسی کو کیا مسئلہ ہے؟،شائد آئیسکو کو لائٹس آن ہونے سے کوئی مسئلہ ہوا ہو،وکیل نے کہاکہ خبریں چلیں کہ قیدیوں کی وین بھی آ گئی،اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ قیدیوں کی وین اس لیے آئی کہ مظاہرین وہاں آ گئے، ان کے لیے وین آئی تھی،عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ کیس کی مزید سماعت 12 مئی تک ملتوی کر دی۔

Back to top button