بسم اللہ الرحمن الرحیم

کھیل

قذافی سٹیڈیم 13سال بعد آج ٹیسٹ میچ کی میزبانی کریگا

پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف 21 مارچ سے شروع ہونے والے ٹیسٹ سیریز کے تیسرے اور فیصلہ کن میچ میں ایک اور سست وکٹ بلے بازوں کے صبر اور مہارت کا امتحان لے گی۔

بابر اعظم نے ٹیسٹ میچ کی چوتھی اننگز میں ایک تاریخ ساز اور یاد گار اننگز کھیلی تھی، جب انہوں نے آسٹریلیا کے بالرز کو 10 گھنٹے سے زیادہ چیلنج کرتے ہوئے 196 رنز بنائے اور سیریز کو 0-0 سے برابر رکھنے کے لیے کراچی ٹیسٹ ڈرا کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔

آسٹریلوی اسپنرز نیتھن لیون اور ڈیبیو کرنے والے لیگ اسپنر مچل سویپسن نے کراچی میں چوتھی اننگز میں 108 اوورز میں 172 رنز دیے، پاکستان نے پانچ سیشنز میں 443-7 کا اسکور بنا کر مہمان ٹیم کو فتح سے دور رکھا، مہمان ٹیم 506 کے ہدف کے تعاقب میں صرف 63 رنز پیچھے رہی۔

راولپنڈی میں ڈرا ہوئے ٹیسٹ میچ میں بھی بے جان وکٹ کے باعث آسٹریلیا نے گرنے والے 14 میں سے صرف 4 وکٹیں حاصل کیں اور پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی پچ کو آئی سی سی کی جانب سے بھی اوسط سے کم درجے کی پچ کی قرار دیتے ہوئے ایک ڈی میرٹ پوائنٹ بھی ملا تھا۔

راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کی وکٹ پر تنقید کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی اکیڈمی کے کیوریٹر ٹوبی لمسڈن سے رابطہ کیا تھا جنہوں نے لاہور ٹیسٹ وکٹ کی تیاری میں مقامی گراؤنڈ اسٹاف کی مدد کی۔

بابر اعظم نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ پچ بھی زیادہ مختلف نہیں ہے، یہ پچ بھی انہیں پچوں کی طرح کی لگتی ہے لیکن مجھے لگتا ہے اس پچ پر بال کچھ ٹرن ہوگا۔

اس پچ میں چھوٹی چھوٹی دراڑیں ہیں جہاں سے اسپنرز کو مدد مل سکتی ہے، لیکن گرم موسم کی وجہ سے 100 فیصد یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے، کچھ بھی صورتحال ہو، ہمارے اسپنرز اس کے لیے تیار ہیں اور مقابلہ کریں گے۔

1998 کے بعد آسٹریلیا کے پاکستان کے تاریخی پہلے دورے نے سیریز کے فیصلہ کن میچ کی اہمیت مزید بڑھا دی ہے۔

لاہور کا قذافی اسٹیڈیم 2009 میں سری لنکن ٹیم کی بس پر دہشت گردانہ حملے کے بعد 13 سالوں میں اپنے پہلے ٹیسٹ کی میزبانی کرے گا، سری لنکن ٹیم پر حملے نے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند کر دیے تھے۔

پاکستان کی ٹیم میں شامل کسی بھی کھلاڑی نے قذافی اسٹیڈیم میں کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا جبکہ بابر اعطم نے 2015 میں زمبابوے کے خلاف یہاں اپنا ون ڈے ڈیبیو کیا تھا جب پاکستان نے غیر ملکی ٹیموں کا اعتماد جیتنے اور عالمی کرکٹ کی وطن واپسی کے لیے کوششیں شروع کی تھیں۔

2019 میں پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کا دوبارہ آغاز اس وقت ہوا جب سری لنکا نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جبکہ بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ نے بھی ٹیسٹ میچ کھیلے، لیکن یہ میچ لاہور کے بجائے کراچی اور راولپنڈی میں کھیلے گئے تھے۔

بابر اعظم نے مزید کہا کہ جب آپ اپنے ہوم گراؤنڈ پر اور اپنے ہوم کراؤڈ کے سامنے کھیلتے ہیں تو آپ کو ایک مختلف احساس ہوتا ہے۔

بابر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ہماری ٹیم کی کارکردگی روز بروز بہتر ہو رہی ہے، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہوم سیر اور یقینی طور پر یہ ہم سب کے لیے فخر کا لمحہ ہو گا۔

پاکستان ابھی تک اس بات پر غور کر رہا ہے کہ کن اسپنرز کے ساتھ لاہور ٹیسٹ کے لیے میدان میں جانا ہے جبکہ آسٹریلیا نے گزشتہ میچ کی ٹیم کو برقرار رکھا ہے جس کا مطلب ہے کہ مچل سویپسن کو تجربہ کار آف اسپنر ناتھین لیون کے ساتھ سست وکٹ پر لیگ اسپن کی مہارت کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک اور میچ میں موقع ملے گا۔

آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز کا کہنا تھا کہ دیکھنے میں لاہور کی پچ بھی گزشتہ میچ کی پچ سے کافی ملتی جلتی ہے،میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ دوسرے میچ سے بہت مختلف وکٹ ہے، لہذا ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اگر کھیل کے بعد ریورس سوئنگ یا اسپن کے لیے ضرورت ہو تو ہم نے تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔

آسٹریلیا کے پاس کراچی میں ہونے والے میچ میں فتح حاصل کرکے سیریز میں 1-0 سے آگے جانے کے امکانات تھے، لیکن اس نے تین اہم کیچز گرائے جس کی وجہ سے بالآخر پاکستان ایک تاریخی ڈرا کرنے میں کامیاب ہوا۔

اوپننگ بلے باز عبداللہ شفیق نے دوسری اننگز میں 96 رنز بنائے جبکہ اسٹیو اسمتھ نے سلپ میں 20 رنز پر انکا ایک کیچ چھوڑ دیا تھا۔

بابر اعظم کو اس وقت مواقع ملے ٹریوس ہیڈ اور مارنس لیبوشین نے آخری دن چائے سے قبل مچل سویپسن کی لگاتار گیندوں پر پاکستانی کپتان کا کیچ گرایا۔

پیٹ کمنز کا کہنا تھا کہ اس سیریز میں وکٹیں بہت اہم ہیں، اس لیے آپ بہت زیادہ مواقع ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں دس سے زیادہ مواقع ملے لیکن بدقسمتی سے ہم ان مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔

پاکستان میں سست رفتار وکٹوں کے باعث آسٹریلیا نے تیز گیند باز جوش ہیزل ووڈ کو لگاتار دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے بھی باہر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور پیٹ کمنز کا کہنا ہے کہ جوش ہیزل ووڈ کو ٹیم میں شامل نہ کرنا کافی مشکل فیصلہ تھا لیکن مچل اسٹارک کی ریورس سوئنگ آسٹریلیا کو آخری ٹیسٹ میں 20 وکٹیں لینے میں مدد دے سکتی ہے۔

پیٹ کمنز کا کہنا تھا کہ ریورس سوئنگ سب سے بڑا عنصر ہونے والا ہے اور مچل اسٹارک نے آخری ٹیسٹ میں شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے پہلی اننگز میں تین وکٹیں حاصل کیں۔

جوش ہیزل ووڈ جیسے کھیلاڑی کو ٹیم میں شامل نہ کرنا ہمیشہ مشکل فیصلہ ہوتا ہے لیکن موجودہ کنڈیشنز میں مچل اسٹارک شاید ہمیں 20 وکٹیں لینے کا بہترین موقع فراہم کریں۔

ٹیم آسٹریلیا:

ڈیوڈ وارنر، عثمان خواجہ، مارنس لیبوشین، اسٹیو اسمتھ، ٹریوس ہیڈ، کیمرون گرین، الیکس کیری، پیٹ کمنز (کپتان)، مچل اسٹارک، مچل سویپسن، نیتھن لیون۔

Back to top button