بسم اللہ الرحمن الرحیم

قومی

رانا شمیم و دیگر کے خلاف فرد جرم کی کارروائی ملتوی، فریقین کو ‘سوچنے’ کا موقع

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم، جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن اور سینئر صحافیوں انصار عباسی اور عامر غوری کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی ملتوی کر دی۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انگریزی روزنامے میں شائع ہونے والی رپورٹ میں اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، گلگت بلتستان کے چیف جج رانا شمیم اور ان کے وکیل لطیف آفریدی کے علاوہ صحافی انصار عباسی اور عامر غوری عدالت میں پیش ہوئے البتہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن غیر حاضر رہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ میر شکیل الرحمٰن آج کیوں پیش نہیں ہوئے آج تو فرد جرم عائد کی جانی تھی؟ جس پر انصار عباسی نے بتایا کہ میر شکیل الرحمٰن اور ان کی پوری فیملی کو کورونا ہوگیا ہے اس لیے قرنطینہ میں ہیں۔

عدالت نے انصار عباسی سے استفسار کیا آپ نے درخواست دائر کی تھی جس میں کہا تھا کہ عدالت نے کلیرکل غلطی کی، بتائیں کونسی غلطی ہوئی، جس پر انصار عباسی نے عدالتی حکم نامے میں کی گئی غلطی کی نشاندھی کی۔

عدالت نے کہا کہ اس ملک میں کسی کو سبجوڈس رولز کا پتا نہیں یا پھر جاننا نہیں چاہتے، اس عدالت سے زیادہ آزادی اظہارِ رائے پر کوئی یقین نہیں رکھتا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اس عدالت کے بینچ سے متعلق بیانیہ تھا جس میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور میں شامل تھا۔

عدالت نے کہا کہ اس بیانیہ سے یہ رائے دی جارہی ہے کہ ججز دباؤ میں فیصلے کرتے ہیں، اس قسم کی خبروں کی وجہ سے عوام کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔

انصار عباسی نے مؤقف اپنایا کہ میرا مقصد اس عدالت کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کرنا نہیں تھا، حقیقت رانا شمیم بتائیں گے، میں نے اپنی خبر میں کسی جج کا نام نہیں لکھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پتا تھا کہ کیس زیر سماعت ہے اور پھر بھی آپ نے بیان حلفی کو چھاپا، ذاتی حیثیت میں آپ کی قدر کرتے ہیں، آپ نے کہا کہ بیان حلفی شاید غلط ہوا ہو لیکن ہم پھر بھی چھاپیں گے، نا سمجھی میں بھی چیزیں ہوجاتی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ آپ کا اتنا بڑا اخبار ہے آپ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ خبر کس کیس پر اثرانداز ہو گی، یا تو آپ کہہ دیں کہ آپ کو یہ بھی معلوم نہیں تھا۔

انصار عباسی نے فرد جرم عائد نہ کرنے کی استدعا کی جس پر عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ چارج فریم ہوگا تو ہی عدالت آپ کو سنے گی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس بینچ سے زیادہ کوئی ازادی اظہارِ رائے کا حامی نہیں، ہم آپ کی دیانتداری پر سوال نہیں کر رہے ہم چاہتے ہیں آپ کو احساس ہو کہ آپ کی خبر کا کیا اثر ہوا۔

دوران سماعت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نمائندے اور عدالتی معاون ناصر زیدی نے مؤقف اپنایا کہ اس عدالت کے تمام ججز کا احترام ہم دل سے کرتے ہیں، اس اندھیر نگری میں آپ روشنی ہیں اور ہمیں ہمیشہ آپ سے انصاف ملتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کے ہر مشکل وقت میں آپ نے ہی ہمیں انصاف دیا، آپ نے ہی کہا کہ غلطی انجانے میں ہو سکتی ہے، فرد جرم عائد نہ کریں کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کچھ بین الاقوامی ادارے تو اس عدالت پر اظہار رائے پر پابندی کے الزامات لگا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کے لیے سائلین کے حقوق سب سے زیادہ اہم ہیں، عدالت نے لکھا ہے کہ اگر کوئی معروف آدمی بیان حلفی دے چاہے وہ جھوٹا ہو تو آپ چھاپ دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ جو بیانیہ بنایا ہوا ہے یہ سائل کے لیے بہت فرق پیدا کرتا ہے، بیانیہ یہ ہے کہ ایک جج نے ثاقب نثار سے بات کی لیکن وہ بینچ میں شامل ہی نہیں تھے۔

بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل تھے جس کے بعد وہ اپیلیں میرے بینچ نے بھی سنیں، اس بیانیے کے مطابق ہم تینوں پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جن کے نام خبر میں لکھے ہیں دو دن بعد ان کے کیسز لگے تھے، عدالت نے پوری سماعت میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ نے کیا غلطی کی ہے، مجھ پر جتنا مرضی کوئی تنقید کرے مجھے فرق نہیں پڑتا۔

عدالت نے کہا کہ آپ کا کیس چل رہا ہے اپنے پچھلے اخبار دیکھ لیں کہ آپ کیا چھاپ رہے ہیں؟

انصار عباسی نے مؤقف اپنایا کہ میں نے اپنے کیس میں نہ جج اور نہ ہی عدالت کا نام لیا، ان کے بیان حلفی میں جو کہا گیا تھا وہ ماضی سے جڑا تھا۔

انصار عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں اگر ایک بیان حلفی جھوٹا ہو پھر بھی چھاپ دیں گے، جس پر انصار عباسی نے کہا کہ اگر ہمیں پتا ہو کہ جھوٹا ہے تو ہم یہ لکھیں گے کہ جھوٹا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے نشاندہی کی آپ کے دو بیانات میں تضاد ہے، جب آپ کو نہیں پتا تھا کہ وہ سچ ہے یا نہیں تو پھر آپ نہ چھاپتے۔

انصار عباسی نے کہا کہ افتخار چوہدری والے معاملے میں جتنے بیان حلفی آئے تھے وہ سارے چھپے تھے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ معاملہ کیا تھا یہ بھی بتائیں۔

انصار عباسی نے کہا کہ میں نے بیان حلفی کی خبر میں ہائی کورٹ یا جج کا نام نہیں لکھا، میں نے احتیاط برتی لیکن عدالت نے اسے سمجھ لیا کہ تمام ججز کو مشکوک کیا گیا۔

انصار عباسی نے کہا کہ ظفر عباس صاحب(ڈان کے ایڈیٹر) نے لکھا کہ مجھے بیان حلفی ملتا تو میں بھی وہی کرتا جو انصار نے کیا۔

اس پر عدالت نے کہا کہ اچھا ہوا ظفر صاحب نے نہیں کیا ورنہ ان کے خلاف بھی توہین عدالت کیس ہوتا، آپ کسی وکیل سے پوچھ لیتے کہ اس بیان حلفی کی کیا اہمیت ہے۔

اس موقع پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ رانا شمیم کی حد تک یہ مجرمانہ توہین عدالت کا کیس بنتا ہے لیکن صحافیوں کے خلاف نہیں، ریکلیس دستاویزات چھاپنے پر توہین عدالت نہیں بنتی۔

ان کا کہنا تھا کہ صحافی کا کبھی ایسا خیال نہیں ہوتا کہ توہین عدالت کا مرتکب ہو، انصار عباسی کو چاہیے تھا کہ تھوڑا انتظار کرتے اور مزید معلومات حاصل کرتے۔

انہوں نے کہا کہ البتہ صحافی کی جانب سے خبر شائع کرنے میں لاپروائی ہوئی اور لاپروائی کبھی بھی توہین عدالت میں نہیں آتی، کیس میں صحافیوں پر فرد جرم عائد نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انصار عباسی سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ جائیں، فردوس عاشق اعوان کیس میں اس عدالت کا بہت ہی زبردست فیصلہ موجود ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہاں مسئلہ ان کے مؤقف کا ہے اور کوئی پچھتاوا نہیں، انصار عباسی اور عامر غوری کا مؤقف مختلف ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کے عدالت پر اعتماد کو ختم کرنے کے لیے سیاسی بیانیہ بنایا جاتا ہے، اس عدالت سے ایسا کونسا فیصلہ جاری ہوا جس پر شک کیا جائے؟ جس سے لگے کہ اس عدالت کے کسی جج پر دباؤ ڈالا جاسکتا ہے؟ یہ ایک بیانیے کی شروعات ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ اس عدالت کا عام آدمی کے لیے بنیادی حقوق کے لیے دیا گیا فیصلہ میڈیا میں چلتا نہیں، کسی بڑے آدمی کی بات ہو تو وہ خبر بہت زیادہ چلتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک عوام کا عدالت پر اعتماد نہ ہو وہ عدالت نہیں آتے، اس عدالت کی ذمہ داری ہے کہ سائلین کی حقوق کا تحفظ کرے۔

عدالتی معاون ریما عمر نے بینچ کے سامنے کہا کہ آزادی اظہار رائے کے لیے عدالت کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔

ریما عمر کا مزید کہنا تھا کہ صحافی کا کام خبر شائع کرتے وقت مناسب احتیاط برتنا ہے، انصار عباسی نے اپنی خبر میں ثاقب نثار کا مؤقف بھی شامل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بیان حلفی سوشل میڈیا پر بھی چلتا رہا لیکن خبر میں اس ہائی کورٹ یا جج کا نام نہیں لکھا گیا، صحافی نے خبر شائع کرتے وقت کسی حد تک مناسب احتیاط برتی۔

دوران سماعت عدالت میں معاون ریما عمر نے مؤقف اپنایا کہ اس عدالت کے جج شوکت عزیز صدیقی نے بہت سے الزامات لگائے جو میڈیا نے رپورٹ کیے۔

سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی راولپنڈی بار میں کی گئی تقریر کا حوالہ دینے پر عدالت نے ریما عمر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا پھر یہ بیانیہ درست ہے کہ جو سزا معطل کی تھی وہ بینچ کسی کے کہنے پر بنے تھے؟ کیا آپ شک کر رہی ہیں کہ اس عدالت کے بینچز کسی کے کہنے پر بنتے ہیں؟

ریما عمر نے نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ بالکل نہیں، میں جو کہنا چاہ رہی ہوں وہ سن لیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو شک نہیں تو پھر آپ کو یہ حوالہ بالکل نہیں دینا چاہیے تھا، آپ عدالتی معاون ہیں مہربانی کرکے اپنی نشست پر تشریف رکھیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ لطیف آفریدی نے 15 منٹ مانگے تھے، جس پر آج ہم چارج کے لیے تیار ہوکر آئے تھے وہ 15 منٹ میں بھول گیا۔

عبداللطیف آفریدی نے کہا کہ انصار عباسی کو بہت پہلے سے جانتا ہوں، وہ عوام تک سچ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اس موضوع پر کم علمی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔

وکیل نے مزید کہا کہ بیان حلفی انصار عباسی نے کہیں سے لے کر پبلش کرایا میرے مؤکل رانا شمیم نے بیان حلفی کسی کو نہیں دیا، ہمیں لوگوں کو صحیح اور سچ معلومات فراہم کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت عبداللطیف آفریدی بطور عدالتی معاون دلائل دے رہے ہیں، یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحافی کو چھوڑ دیں اور میرے کلائنٹ کے خلاف کارروائی کریں، عدالت کے اس ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

لطیف آفریدی نے کیس کو ختم کرنے کی استدعا کی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کو ختم کریں تاکہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلا جائے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ پہلے دن سے مؤقف ہے کہ میڈیا کا کردار ثانوی ہے، میں سیاسی نہیں بلکہ مکمل طور پر قانونی بات کر رہا ہوں، ایک بیانیہ کافی عرصے سے بنایا جا رہا ہے، یہ کہہ سکتا ہوں بیانیہ بنانے والا اس عدالت میں موجود نہیں۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ کافی عرصے سے مخصوص طریقے سے ایک بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے، یہ کیس اور فردوس عاشق اعوان کیس مجرمانہ توہین کے کیس ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انصار عباسی یا کوئی اور صحافی نہیں بلکہ ان کے ادارے ان معاملات میں ملوث ہیں، یہ بیان حلفی نہیں بلکہ ایک بیانیہ ہے، یہ اداروں کے لیے ایک موقع ہے کہ سیاست میں جو کرنا ہے کریں مگر کسی بیانیے کو تقویت نہ دیں۔

اٹارنی جنرل نے رانا شمیم کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی استدعا کی اور مؤقف اپنایا کہ انصار عباسی اور دیگر کو کیس میں آگے لے کر جائیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے غلطی کا اعتراف کرنے سے عزت میں اضافہ ہوتا ہے، آئندہ سماعت تک ان کو سوچنے کا وقت دیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے میر شکیل الرحمٰن کو ویڈیو لنک پر لینے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میر شکیل الرحمٰن فرد جرم کے لیے عدالت آئیں گے، کسی کا فیئر ٹرائل کا حق سلب نہیں کیا جائے گا۔

بعدازاں عدالت نے تمام ملزمان کو سوچنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے سماعت 20 جنوری تک ملتوی کردی۔

Back to top button