بسم اللہ الرحمن الرحیم

کھیل

پاکستانی طلبہ چین میں مارشل آرٹس کے ذریعے ثقافتی ہم آہنگی سے روشناس

’’طاقت لگانے سے پہلے جسم کو ڈھیلا چھوڑیں، اپنا توازن مضبوط رکھیں۔ جب وار کریں تو پورے جسم کی ہم آہنگی کے ساتھ تیزی سے حرکت کریں، نرمی اور سختی کو یکجا کرتے ہوئے صرف بازوؤں یا ٹانگوں پر انحصار نہ کریں۔‘‘ چین کے مشرقی صوبے شان ڈونگ کی سردیوں کی ایک صبح شاؤلین کُنگ فو سے ماخوذ چینی باکسنگ کے ایک انداز آن جیا چھوان کی 5 ویں نسل کے 44 سالہ وارث آن جیان چھیو نے دے ژو یونیورسٹی کے کیمپس میں روایتی طرز کی راہ داری کے سامنے طاقتور حرکات کا مظاہرہ کیا۔

ان کے پیچھے پاکستان، مراکش اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے طلبہ ہر مکے اور ہر قدم کو پوری توجہ سے دہراتے ہوئے ا ن کی حرکات کی نقل کر رہے تھے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ طالب علم محمد نبیل صادق کے لئے یہ منظر چین آنے سے قبل کبھی تصور میں بھی نہ تھا۔ کمپیوٹر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل کرنے والے صادق نومبر 2023 میں دے ژو یونیورسٹی پہنچے اور پہلی بار چینی مارشل آرٹس سے واقف ہوئے۔

تائی چھی، باجی چھوان (ایٹ ایکسٹریمز باکسنگ) جیسے مشہور چینی کُنگ فو انداز کو روزمرہ کی تدریس میں منسلک کرنے والے یونیورسٹی کے جاری ’’مارشل آرٹس آن کیمپس‘‘ پروگرام کی بدولت چینی مارشل آرٹس غیر ملکی طلبہ کے لئے چینی ثقافت کو سمجھنے کی ایک اہم کھڑکی بن چکے ہیں۔

صادق نے کہا کہ میں نے تائی چھی سے آغاز کیا اور دوسرے سمسٹر میں باجی چھوان سیکھنا شروع کیا۔ ہر انداز کی اپنی حرکات اور خصوصیات ہیں اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مارشل آرٹس کی مشق نے انہیں زیادہ پرجوش بنایا اور چینی ثقافت میں ان کی دلچسپی مزید گہری کر دی۔
صادق کے مطابق پاکستان اور چین کی گہری اور دیرینہ دوستی نے ان کے چین میں تعلیم حاصل کرنے کے فیصلے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی میں لوگوں کو بتاتا ہوں کہ میں پاکستان سے ہوں تو وہ بہت دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین میں تحفظ اور مواقع دیگر ممالک کے نوجوانوں کو اچھا ماحول فراہم کرتے ہیں۔

چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے حوالے سے صادق نے کہا کہ یہ نقل و حمل اور توانائی جیسے اہم شعبوں کا احاطہ کرتی ہے اور عوامی رابطوں اور عملی تعاون کو بہت فروغ دیتی ہے۔ میں مستقبل میں چین میں ماسٹرز کرنا چاہتا ہوں۔ اگر ممکن ہوا تو یہاں نوکری کی تلاش کے لئے بھی پرامید ہوں۔ یہ ایک بہترین موقع ہوگا۔

شہر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ طالبہ ماہ نور ایک سال سے زیادہ عرصے سے دے ژو یونیورسٹی میں باجی چھوان کی مشق کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مارشل آرٹس نے نہ صرف ان کی جسمانی صحت مضبوط کی ہے بلکہ انہیں زیادہ چینی دوست بنانے میں بھی مدد دی ہے۔

ماہ نور نے کہا کہ میں چین میں اپنی زندگی سے واقعی لطف اندوز ہو رہی ہوں اور یہاں میرا وقت بہت اچھا گزرا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کی تیز رفتار ترقی اور جدید ٹیکنالوجیز نے ان پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی سکالرشپس کی بدولت پاکستانی طلبہ اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں۔ میں امید کرتی ہوں کہ مستقبل میں پاکستان اور چین کی دوستی میں اپنا کردار ادا کر سکوں۔

شان ڈونگ صوبے کے غیر مادی ثقافتی ورثے کی چھٹی فہرست میں شامل کیا گیا آن جیا چھوان روایتی شاؤلین کُنگ فو سے منسلک ہے۔ یہ باجی چھوان اور تائی چھی جیسے دیگر اندازوں کے عناصر کو یکجا کرتا ہے اور اس کی 120 سال سے زیادہ پرانی تاریخ ہے۔

آن جیان چھیو نے 6 برس کی عمر میں اپنے والد سے تربیت کا آغاز کیا۔ دہائیوں میں انہوں نے نہ صرف چین میں مارشل آرٹس سکول کھولے بلکہ یورپ کے مختلف ممالک میں بین الاقوامی تربیتی مراکز قائم کر کے تعلیم بھی دی۔ آج ان کے 20 سے زائد ممالک اور خطوں سے ہزاروں غیر ملکی شاگرد موجود ہیں۔

آن نے کہا کہ دہائیوں پہلے دنیا بھر کے بہت سے کُنگ فو کے شوقین مارشل آرٹس کو صرف فلموں کے ذریعے جان پاتے تھے اور ان کا تاثر بہت مبہم ہوتا تھا۔ چین اور دیگر ممالک کے درمیان بڑھتے تبادلوں کی وجہ سے اب زیادہ نوجوانوں کے لئے چین میں براہ راست مارشل آرٹس سیکھنے کے مواقع بڑھ گئے ہیں جبکہ مزید چینی استاد بیرون ملک جا کر پڑھا رہے ہیں۔

کیمپس میں مارشل آرٹس سیکھنے کو آسان بنانے کے لئے آن نے آن جیا چھوان کی کچھ حرکات کو آسان شکل میں ڈھالا ہے تاکہ طلبہ کے لئے موزوں ہوں اور انہیں ’’مارشل آرٹس آن کیمپس‘‘ پروگرام کے ذریعے فروغ دیا۔ انہوں نے کہا کہ مارشل آرٹس جسمانی فٹنس بہتر کرتے ہیں، توجہ میں اضافہ کرتے ہیں اور حتیٰ کہ طلبہ کی تعلیمی کارکردگی میں بھی بہتری لاتے ہیں۔

دے ژو یونیورسٹی کے مارشل آرٹس انسٹرکٹر ژو ہان شوان کے مطابق یونیورسٹی تعلیمی تحقیق اور تدریسی فروغ کے ایک متوازی نظام کی تعمیر کر رہی ہے جس میں مارشل آرٹس کو کورسز، طلبہ کلبوں اور مقابلوں میں شامل کیا جا رہا ہے۔ روایت کو محفوظ رکھتے ہوئے اور جدت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ چین اور بیرون ملک سے آنے والے طلبہ روایتی مارشل آرٹس کے حقیقی حسن کو محسوس کر سکیں۔

صادق اور ماہ نور جیسے طلبہ کے لئے مارشل آرٹس محض ایک کھیل نہیں بلکہ مختلف ثقافتوں کے نوجوانوں کو جوڑنے والا ایک پل ہے۔

صادق نے کہا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات بہت اچھے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں یہ مزید بہتر ہوں گے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ کے تجربات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ ثقافتی تبادلے باہمی سمجھ بوجھ کو گہرا کرتے ہیں اور اقوام کے درمیان تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں۔

اشتہار
Back to top button